Mahmood Asghar
Choudhary
Home
Columns
Immigration Columns
Pictures
Contacts
Feedback
اطالوی شہر میںاقبال ... 36 واںحصہ
Download Urdu Fonts
اٹلی میں ہمارے سکول کا آخری دن قریب آرہاتھا ۔ شہر کے تھیئٹر میں ایک بہت بڑا الوادعی پروگرام رکھا گیا ۔ ہماری ٹیچر کیارا جیریمولدی نے تمام طلباء کو کچھ نہ کچھ تیار کر نے کا کہا ۔ گردیپ سنگھ بولا وہ پنجابی بھنگڑا ڈالے گا۔ روی اور پروین شرما کہنے لگے وہ سلمان خان کے گانے '' چلتی ہے کیا نو سے بارہ'' پراپنی ڈانس پرفارمنس تیار کریں گے ۔ غلام ربانی نےایک گروپ تیار کریا جس میں سب نے ملکر ایک گانا ۔ میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تو ۔گانا تھا۔اس گانے کی اطالوی زبان میں ٹرانسلیشن کی ذمہ داری ٹیچر نے مجھے دی ۔ محمد افضال نے تارکین وطن کے حقوق پر تقریر تیار کی ۔ میری باری آئی تو ٹیچر نے مجھ سے پوچھا کہ تم کیا کرسکتے ہو میں نے کہا میں بھی دوسری جماعت سے ہی تقریر کرتا رہا ہوں ۔ اس نے کہا توپھر ایسی تقریر تیار کرنی ہوگی کہ جس میں مختلف اقوام اور مذاہب کے لوگوں کے درمیان محبت کا پیغام جائے ۔بلکہ اس نے مجھے خلیل جبران کی کتاب تحفے میں دے دی اور اس کی نظم دوستی کو تین زبانوں اردو ، انگریزی اور اطالوی زبان میں تیار کرنے کا کہا ۔ ہم سب تیاری میں لگ گئے۔ خلیل جبران مجھے پسند تو بہت تھے لیکن میں نے نوٹ کیا کہ ان کی نظم دوستی کی زبان اتنی ثقیل تھی کہ حاضرین پر کوئی تاثر نہیں چھوڑے گی ۔ مثلا وہ لکھتے ہیں کہ ''تمہارا دوست وہ ہے جو تمہاری احتیاج پوری کرے، وہ تمہارا وہ کھیت ہے جس میں تم محبت کی تخم پوشی کرتے ہو،اسی کھیتی کو تم تشکر اور اطمینان کے ساتھ کاٹتے ہواور جب تمہارا دوست اپنے دل کی کوئی بات تم سے کہتا ہے تو تم کو نہ اپنے دل کی نہیں متردو کرتی ہے ۔ نہ تم اس کو اپنی ہاں سے محروم رکھتے ہو'' میں نے سوچا یہ نظم دوستی کی دعوت تو دیتی ہے لیکن اس میں بین المذاہب انسانوں میں دوستی کا درس کہاں سے ملتا ہے؟بہرحال ٹیچر کا حکم تھا میں نے بڑی محنت سے اسے تینوں زبانوں میں تیار کیا۔ مقررہ دن تھئیٹر مقامی شہریوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ اطالوی شہری پہلی دفعہ غیر ملکیوں کی پرفارمنس دیکھنے آئے تھے ۔ پروگرام جاری ہوا تو گردیپ سنگھ کے بھنگڑے ، روی شرما اور پروین شرما کے جدید ترین ڈانس اورتھیئٹر کی جلتی بجھتی روشنیوں میں کورس میں گائے گئے گانے اور اطالوی نوجوانوں کی پرفارمنس ''ہے ماکارینا '' پر تالیوں کی دھوم مچ گئی ۔یہ سب دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا تھا کہ میرا خلیل جبران والا ثقیل سا فلسفہ سب کو بور کردے گا ۔البتہ مجھے تقریر کے فن سے آگاہی تھی کہ تقریر میں داد حاصل کرنے کے لئے دو مواقع اہم ہوتے ہیں۔ جہاں سے آغاز کیا جائے اور جس بات پر اختتام کیا جائے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ بقول قدرت اللہ شہاب بچپن سے یہی سیکھا تھا ۔ تقریر میں جہاں پھنس جاؤ ۔ کلام اقبال کا سہا را لے لو ۔ یہ فارمولا کبھی ناکام نہیں ہوتا مجھے اسٹیج پر بلایا گیا تو میں نے سب سے پہلے تو امیتابھ بچن کے انداز میں یہ شعر اطالوی زبان میں پڑھا ۔ ہم بندے ہیں پیار کے ۔۔ مانگے سب کی خیر ۔۔ اپنی سب سے دوستی ۔۔نہیں کسی سے بیر ۔۔ ابھی شعر ختم کیا ہی تھا کہ تالیاں بج اٹھیں ۔ سیٹیاں بج اٹھیں اور واہ واہ شروع ہوگئی ۔اس کے بعد خلیل جبران کی نظم پڑھنا شروع کی ۔ جب محسوس ہوا کہ لوگ بور ہونا شروع ہی ہوئے تھے کہ میں نے کہا میں اپنی گفتگو پاکستان کے ایک شاعر جنہیں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کہا جاتا ہے ان کے شعر سے کروں گا ۔۔ وہ فرماتے ہیں کہ خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے۔۔۔۔۔ میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا بس جی پھر کیا تھا ۔ وہ شور اٹھا ، واہ واہ کی وہ دھوم مچی ، لوگوں کی تالیوں کی وہ گونج اٹھی کی سب کی ڈانس پرفارمنس اور گانے وانے سب پیچھے رہ گئے ۔ یہ پروگرام مقامی تھیئٹر میں ہورہا تھا جس کا انتظام و انصرام مقامی چرچ کے ذمے تھا ۔ شہر سے کیمونسٹ اور کیتھولک شہریوں کی کثیر تعداد موجود تھی ۔ شہر کا پادری بھی آیا ہوا تھا ۔ میں اسٹیج سے اترا تو لوگوں تو میر ا ہاتھ پکڑ لیا ۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ۔۔وومو دیل آمورے'' پیار کا بندہ ۔۔ کہہ کر شور مچانے لگے ۔ اور مذہبی لوگ خدا کے بندوں سے پیار والے معاملے میں عش عش کر اٹھے ۔ اس کے بعد شہر میں کئی مہینوں تک لوگ مجھے ''وومو دیل آمورے ''اور پاکستانی ویلنٹائین ۔۔ اور پتہ نہیں کیا کیا کہنا شروع ہوگئے ۔اساتذہ اقبال کے بارے جانکاری لینا شروع ہوگئے ۔ پادری صاحب فرمانے لگے واہ کیا کما ل تخیل ہے اقبال کا ۔تقریر پرکسی نے بھی خلیل جبران کی نظم پر تو کسی نے تبصرہ نہیں کیا البتہ ہر جانب اقبال اقبال ہی ہونے گا ۔ سچ تو یہ ہے کہ لبنانی شاعر خلیل جبران کے نام سے شاید ہی کوئی یورپی ناواقف ہو۔ لیکن اقبال کے نام سے لوگ دنیامیں آشنا کیوں نہیں ہیں ۔یہ وہ سوال ہے جو ہم سب کو یوم اقبال پر ایک دوسرسے سے کرنا چاہئےجس کا جواب سادہ ہے خلیل جبران کی جو نظم میں نے پڑھی وہ دنیا کی 112زبانوں میں ترجمہ ہوئی اور اقبال ابھی تک صرف 41زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے ۔ جس دن ہم نے اس فرق کو مٹا دیا اس نے ہم یوم اقبال منانے کے حقدار ٹھہریں گے
Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام
Admin Login
LOGIN
MAIN MENU
کالمز
امیگریشن کالمز
تصاویر
رابطہ
تازہ ترین
فیڈ بیک
Mahmood Asghar Chaudhry
Crea il tuo badge
Mahmood Asghar Ch.