Mahmood Asghar

Choudhary

بدلتا سعودی عرب ... 20 نومبر 2024
Download Urdu Fonts
گزشتہ کئی دنوں سےسوشل میڈیا پر سعودی عرب میں ہونے والے فیشن شو پربے جا تنقید کرنے والوں اور اس کے وکیل بننے والوں کو سعودی حکومتی صحافی عبداللہ الجدایہ نے بھر پور طریقے سے شٹ ا پ کال دے دی ہے ۔ اور واضح کردیا ہے کہ سعودی عرب کا وژن 2030منصوبہ جس میں سعودی معیشت کو تیل پر معاشی انحصار سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے والے اور نئی اصلاحات پر تنقید کرنے والوں کو درخور اعتناء نہیں سمجھا جائے گا۔ عبداللہ الجدایہ نے ایک جانب تو انتہا پسندوں کے سخت گیر نظریات کا جواب دیا تودوسری جانب اپنے خو د ساختہ حمایتیوں کو منہ بھی بند کرادیا ہے جو خود ہی وکیل بن کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ سب فیک پراپیگنڈہ ہے ۔ سعودی چینل العربیہ پر ایک انٹرویو میں انہوں نے مختلف دلائل سامنے رکھیں ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ انتہا پسند سعودی عرب کو صرف دو مقدس مساجد والا ملک ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔حالانکہ حرمین شریفین سعود ی عرب کا ایک حصہ ہیں پورا سعودیہ نہیں ہے ۔ غ زہ میں میں مسلمانوں کی شہادت کے موضوع پر ان کا کہنا تھا کہ وہ مسئلہ تو اسی سال سے جاری ہے اس کا تعلق ریاض کنسرٹ سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے اور ویسے بھی جنگوں اور مشکل لمحات میں بھی اس طرح کے تفریحی فیشن شو مسلمانوں کے چہروں پر مسکراہٹ لانے کیلئے ہیں ۔ چوکور سکرینوں کو کعبے کی مشابہت قرار دینے والوں کو کرارا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کیا دنیا میں کوئی سمجھدار شخص ہے جو یہ کہے کہ کوئی بھی کیوب یا چوکور چیز کعبہ کی توہین ہے۔ کعبہ کے قریبی شہر میں فیشن شو اور کنسرٹ کے حوالے سے انہوں نے بڑا لاجیکل جواب دیا کہ اگر صرف کعبہ سے فاصلے کی بنا پرمسلمان ملکوں میں شو نہیں ہونے چاہئے تو ا س طرح تو مصر فاصلے کے اعتبار سے ریاض کے مقابلے میں کعبہ سے کم فاصلے پر ہے تو ثابت ہوگیا کہ سعودی عرب تو اب اپنے معاشی ویژن اور اصلاحات میں کسی کی بات نہیں سننے والاہے تو ایسے میں ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اسلام کے ٹھیکدار بننے کی بجائے اور دیگر ممالک پر تنقید کرنے کی بجائے اپنے ملک کی معیشت او ر ویژن کے بارے سوچیں ۔ جس ملک میں ہر سال بلوچستان میں ایک نیا آپریشن کرنا پڑتا ہے ۔ ہر سال دہشتگردوں کی کمر توڑ دی جاتی ہے ۔ ہر سال ہرحکومت ہر سیاسی پارٹی اپنے موقف میں اسلامک ٹچ لاتی رہتی ہے اور پھر بھی اسلام کو ہمیشہ خطرہ رہتا ہے انہیں چاہیے کہ میعشت اس ملک سے سیکھیں جو زبان دان ہونے کی بنا پر مذہب کو آپ سے بہتر ہی سمجھتے ہوں گے ۔ سیاحت میں جتنا پیسہ متحدہ عرب امارات ، تیونس ، مصر اور مراقش جیسے ممالک کما رہے ہیں اگر اسی رستے پر سعودی عرب جارہا ہے تو ہمیں بھی ان سے سیکھنا چاہئے ۔ پاکستان اگر انڈیا ، سری لنکا، چین ، جاپان اور مشرق وسطی کے لوگوں کو ہی سیاحت کے نام پر کھینچنا شروع ہو جائے تو کسی اور سیکٹر پر محنت کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ کراچی کے ساحل سمندر سے لیکر کاغان سوات کے پہاڑوں تک اور تھر کے ریگستانوں سے لیکر موہن جوڈور اور ہڑپہ کی تاریخ تک ہمارے پاس کیا کچھ نہیں ہے لیکن ہم ابھی تک چینی انجبیئروں کو سیکورٹی تک نہیں دے سکتے سیاحوں کو کیا دیں گے ۔ اپنی منجھی تھلے ڈانگ پھیریں جناب ۔ بقول جون ایلیا ۔۔۔ زندگی اتنی بھی دشوار نہیں اپنی اپنی گزارئیے صاحب۔۔۔



Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN