Mahmood Asghar
Choudhary
Home
Columns
Immigration Columns
Pictures
Contacts
Feedback
یہ پارہ چنار میںکیا ہوا ہے .... 23 نومبر 2024
Download Urdu Fonts
یہ پارہ چناہ میں کیا ہوا ہے ؟ تاریخ میں جملہ مشہور ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسر ی بجا رہا تھا ۔ یہ جملہ اس وقت صرف ہمارے حکمرانوں پر صادق آتا جن کے ملک میں پارہ چنارمیں فرقہ وارانہ فسادات جاری ہیں ۔ مسافر بسوں پر حملہ کر کے 42لاشیں گرائی گئیں اور ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی ۔ مرنے والوں میں عورتوں اور بچوں میں ایک بچے کی عمر چھ ماہ بتائی جا رہی ہے لیکن یہ واقعہ جس صوبے میں ہوا ہے وہ اپنی ساری پولیس ساری فورس اور قانون نافذ کرنے والی ساری مشینری اپنے ساتھ لیکر ایک احتجا ج کے لئے نکلا ہے جس احتجاج کے مطالبات میں شہید ہونے والوں کے لیے ایک جملہ بھی موجود نہیں ہے ۔ دوسری جانب مرکزی حکومت اس احتجاج کو روکنے کے لئے اپنی ساری قوت استعمال کرنے والی ہے اور سارا ملک بند کر کے بیٹھ گئی ہے اور ان مرنے والوں کی کوئی چیخ ان کے کانوں تک نہیں پہنچی ۔ حکمرانوں سے کوئی گلہ نہیں ہے انہوں نے کبھی بھی عوام کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی ہے ۔ شکوہ تو عوام سے ہے جنیں شاید خبر بھی نہیں ہے کہ یہ پارہ چنار میں ہوا کیا ہے ؟ عوام اب اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ دنیا اور حکمران ان کی موت کا دکھ محسوس کرے یا نہ کرے انہیں خود بھی اپنے مارے جانے کا افسوس اب نہیں ہوتا ۔ افسوس تو بہت چھوٹا لفظ ہے اب سوشل میڈیا پر ایلگورتھم نے ہمارے ذہنوں کو اس طرح جکڑ لیا ہے کہ اب ایسی کوئی خبر ایسی کوئی بات ایسا کوئی پیغام ہمارے موبائل سکرینوں پر نظر نہیں آتا جہاں اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والا ظلم ، جبر اور ناانصافی ہمیں دکھائی دے ۔ فرقہ وارانہ فسادات میں کر م میں دو سو سے زائد دوکانیں نظر آتش کر دی گئی ہیں ۔ کسی کو خبر ہوئی؟ نہیں ہوئی ، ٹی وی سکرینوں میں کوئی بھی چینل اٹھا کر دیکھ لیں ہر ٹی وی شوپر ایک اوسط درجے کا سیاسی فہم رکھنے والی خاتون کے بلنڈرانہ بیان پر آپ کو گھنٹوں کی نشریات مل جائیں گی لیکن اتنے بڑے ظلم پر کوئی آنکھ پر نم نظر نہیں آتی ۔ کوئی وائے افسوس کا جملہ کسی زبان سے ادا ہوتا نہیں نظر آتا ۔ حادثوں سے بڑا یہ حادثہ ہوا کوئی رکا نہیں حادثہ دیکھ کے والا جملہ اب پرانا ہوا ، اب تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے والا شعر میں چھوٹا ہو گیا ، اب تو عالم ہے کہ ہر شخص نے آنکھوں کے اوپر کسی تانگوں کے آگے جتے ہوئے گھوڑوں والے کھوپے اور خول پہن لئے ہیں جنہیں نہ اپنے دائیں نظر آتا ہے نہ بائیں ۔ بس اس کا سائیس اس چھانٹوں سے ہانک رہا ہے اور وہ اسی جانب جا رہا ہے جس جانب اس کا کوچوان اسے لیکر جارہاہے
Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام
Admin Login
LOGIN
MAIN MENU
کالمز
امیگریشن کالمز
تصاویر
رابطہ
تازہ ترین
فیڈ بیک
Mahmood Asghar Chaudhry
Crea il tuo badge
Mahmood Asghar Ch.