Mahmood Asghar
Choudhary
Home
Columns
Immigration Columns
Pictures
Contacts
Feedback
سیاسی ایندھن ............28 نومبر 2024
Download Urdu Fonts
کئی سال پہلے ایک جنگ کے موقع پر ایک اطالوی اخبار میں ایک کارٹون خاکہ دیکھا تھا یہ خاکہ ذہن میں نقش ہو چکا ہے ۔ ایک چھوٹا بچہ اپنے کٹے بازؤں اور کٹی ٹانگوں سے ماں کے پاس کھڑا ہے اور وہ رو رہی ہے ۔ بچہ کہہ رہا ماں مت رو بس جوں ہی ملک میں جمہوریت آجائے گی یہ مجھے کٹے ہوئے بازو ٹوٹی ہوئی ٹانگیں اور میرا صحتمند جسم لوٹا دیں گے انقلاب کی خاطر نکالنے والے لیڈر تھوڑے دنوں بعد ڈائیلاگ کے نام پر ایک دوسرے کا بازو پکڑیں گے ۔ نئے اتحاد بنیں گے ۔ نئے نعرے وجود میں آئیں گے ۔ مصالحت کے نام پر کوئی مفاہمت ہوگی ۔ اقتدار کی بندر بانٹ میں تو کبھی قومی حکومت کے نام پر تو کبھی ملک کے وسیع تر مفاد کی خاطر الائنس وجود میں آئیں گے مگر اس ماں کی آنکھوں کا پانی کبھی خشک نہیں ہوگا جس کا لعل اس دنیا سے چلا گیا یا زخمی ہو کر معذور ہوگیا ۔ اس باپ کی کمر خمیدہ ہو جائے گی جس کے دیہاڑی دار بچے کو کوئی سیاسی جماعت تین دن کا کھانا آفر کرکے ریاست پر حملہ آور کرانے لے آئی تھی ۔ ہر احتجاج اور ہر مظاہرے میں سب سے بڑا مذاق ہم بناتے ہیں ''حسین رض اور یزید کی اصطلاحات استعمال کر کے ۔ اقتدار کی جنگ کو حق اور محرکہ بنا کر پیش کرنے کے لیے اس سے بڑا دھوکہ آپ کو اور کوئی نہیں دے سکتا دنیاوی اقتدار کی خاطر لڑی جانے والی ہر جنگ یزید اور حسین رض کی لڑائی نہیں ہوتی اگر عقل کی کھڑکیاں کھولیں تو اس “حق و باطل “ کی لڑائی میں میں ایک جانب کھوسہ ہے جو پیپلزپارٹی سے آیا ہے آمریت کے خلاف جنگ لڑنے والا عمر ایوب ایک ڈکٹیٹر کاپوتا مسلم لیگ ن سے آیا ہے ۔ بیرسٹر سیف ایم کیو ایم اور آمر مشرف کا ترجمان تھا ۔ دوسری جانب ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جو ایک دوسرے کے ازلی سیاسی مخالف ہیں جن کا کل تک نعرہ تھا کہ ووٹ کو عزت دو وہ کل ٹی وی سکرین پر فخر سے بتارہے تھے کہ وہ اور مقتدرہ یک جان دو قالب ہو چکے ہیں ۔ اس سے پہلے یہ پی ٹی آئی ہر روز ایک پیج کا فخریہ نعرہ لگاتی تھی ۔ یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا یہ سب لوگ مستقبل میں بھی ایسی مصالحتیں کرتے رہیں گے مگر جن کے بازو کٹے جن کے گردنیں کٹی ان کا کوئی پرسان حال نہیں بنے گا ماضی سے سیکھیں انقلاب کی خاطر کئی جانیں قتل کروانے والے ، قبریں کھدوانے والے اور جو واپس لوٹا اس کو بھی قتل کردو کا اعلان کرنے والے اور سب سے آخر میں میں جاؤں گی کا نعرہ لگانے والے اور ہم سر پر کفن باندھ کر نکلنے والے آج مزے سے اپنی زندگی کے مزے لے رہے ہیں اور ان پولیس والوں اور رینجر والوں اور ان کا کارکنان کے گھر میں کبھی نہ ختم ہونے والی صف ماتم ہے جو ایسے نعروں کے بعد اتنے جذباتی ہو جاتے ہیں کہ مارنے والوں کو تو یزید کہتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ جس کو وہ ابھی حسین سمجھ رہے ہیں وہ حسین نہیں تھا کہ حسین وہ ہے جو خود بھی اسی میدان میں آخری دم تک کھڑے تھے ۔ وہ بھاگنے والوں میں سے نہیں تھے ایسی کوئی جمہوریت نہیں آئے گی جو مرے ہوئے کو واپس لا سکیں جو قتل گاہوں سے چن کر تمہارے علم ، عشاق نکلیں گے وہ تمہاری ہی طرح کسی لیڈر کے شوق اقتدار کا ایندھن بنیں گے میں نہیں کہتا کہ سیاسی جدوجہد نہ کرو اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو بس اتنا کہتا ہوں کہ اس جدوجہد کی خاطر کس حد تک جانا ہے اس کا خیال سوائے تمہارے اور کوئی نہیں رکھ سکتا کیونکہ تم اپنی پارٹی کے لئے ایک لاش نمبر سے زیادہ نہی ہو لیکن اپنی ماں اور اپنے خاندان والوں کے لئے تم ان کی کل کائنات ہو ۔ اپنے بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کے لئے تم ساری دنیا ہو کب سمجھو گے
Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام
Admin Login
LOGIN
MAIN MENU
کالمز
امیگریشن کالمز
تصاویر
رابطہ
تازہ ترین
فیڈ بیک
Mahmood Asghar Chaudhry
Crea il tuo badge
Mahmood Asghar Ch.