Mahmood Asghar
Choudhary
Home
Columns
Immigration Columns
Pictures
Contacts
Feedback
مہذب معاشروں میںاحتجاج کا طریقہ کار .... یکم دسمبر 2024
Download Urdu Fonts
میں نے اٹلی میں بارہ سال ٹریڈ یونین میں کام کیا ہے۔ احتجاج، لانگ مارچ، دھرنے، سیمینار، کنونشن اور کانفرنسیں یہ میری جاب کا بنیادی عنصر تھیں۔ اس عرصہ میں شاید ہی کوئی مہینہ ایسا گزرتا ہو گا جس میں کوئی نہ کوئی احتجاجی مظاہرہ نہ کیا ہو۔ کبھی کسی شعبے کی ہڑتال، کبھی کسی کے ساتھ علامتی دھرنا، اور کبھی کسی کنٹریکٹ کی منظوری کے لئے لانگ مارچ کا اہتمام۔ میرا تعلق چونکہ امیگریشن آفس سے تھا تو پھر چاہے کنسٹرکشن ورکر ہو یا میٹل مکینک، ڈرائیور ہوں یا ٹیچر، آفس ورکر ہوں یا مزدور کسی بھی شعبے، کسی بھی ڈیپارٹمنٹ کی ہڑتال ہو یا دھرنا، میرا رول ویسے ہی کلیدی ہو جاتا تھا۔ ایسے تمام مظاہروں سے پہلے لوگوں کو آمادہ کرنا اور بعد میں ورکرز کے ساتھ میٹنگ میں مطالبات کے تسلیم کیے جانے کے بارے میں آگاہ کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہوتی تھی۔ اسی طرح امیگرنٹس کے اپنے حقوق کے لئے جلسے، جلسوں اور دھرنے کی ایک الگ تاریخ ہے۔ ایک دفعہ میٹل مکینک ورکرز نے کافی دن ہڑتالیں کی لیکن حکومت نے اس کا نوٹس نہ لیا۔ آخر ایک دن تنگ آ کر ایک جلوس میں کچھ اطالوی نوجوان ایک ٹرین اسٹیشن میں داخل ہو گئے اور ٹرین روک لی۔ ٹرین دو تین گھنٹے لیٹ ہو گئی۔ حکومت نے تھک ہار کر مطالبات مان لئے اور تنخواہوں میں اضافہ بھی ہو گیا۔ اب ہماری ڈیوٹی تھی کہ ہم ہر فیکٹری میں جاتے اور ورکرز کی میٹنگ میں نئے معاہدے کی تفصیل بتاتے۔ ان میٹنگز میں ورکروں کے چہرے خوشی سے جگمگا رہے ہوتے تھے کہ ہم نے اپنے مطالبات منوا لئے لیکن ٹریڈ یونین کے ہر نمائندے کی تقریر ان جملوں سے شروع ہوتی تھی۔ ہمیں ان مطالبات کی منظوری کی کوئی خوشی نہیں کیونکہ ہم نے ایک مہذب معاشرے کی روایات کو توڑا ہے۔ ہم نے اس ملک کے مسافروں کو تکلیف پہنچائی ہے۔ آئیے عہد کریں کہ آئندہ ایسا کبھی نہیں ہو گا چاہے کسی بھی قسم کے مطالبات ہوں ہم ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے ملکی املاک کو نقصان پہنچے یا اس ملک کے شہریوں کو کسی قسم کی تکلیف پہنچے۔ ایک دفعہ ایک اطالوی سکول کی پرائمری جماعت میں سکول کی انتظامیہ نے غیر ملکی بچوں کی کلاس اطالوی شہریوں سے الگ کر دی۔ ٹریڈ یونین نے دھرنوں اور جلوسوں کا اہتمام شروع کیا۔ میری ڈیوٹی تھی کہ غیر ملکی والدین کو اس تعصب سے آگاہ کرنا اور انہیں احتجاج کے لئے موبلائز کرنا۔ میں نے یہ تجویز پیش کی کہ کیوں نہ مظاہرے والے دن ان غیر ملکی بچوں کو بھی لے آئیں۔ میڈیا میں اچھی تشہیر ملے گی، تو سیکرٹری جنرل کی طرف سے فوراً یہ جواب آیا کہ بالکل نہیں۔ ہم بچوں کو سیاست میں نہیں لا سکتے۔ ان چھوٹے بچوں کے ذہن میں ابھی سے سکول کے خلاف اور انتظامیہ کے خلاف نفرت نہیں پھیلا سکتے۔ آج ہمارے ہاں ننھے ننھے بچوں کے منہ سے مخالف سیاسی راہنماؤں کی جانب سے چور ڈاکو یا گالیاں دینے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر فخریہ شیئر کی جاتی ہیں۔ جلوسوں کی بات کی جائے تو روم میں 23 مارچ 2002 ء کو ایک بہت بڑا مظاہرہ ہوا جس میں تین ملین لوگوں نے شرکت کی۔ روم میں ہی سن 2008 ء میں ایک اور ملین مارچ ہوا جس میں 25 لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ ان دونوں مظاہروں میں اٹلی کے امیگرنٹس کو متحرک کر کے شامل کرنے کی ذمہ داری میری تھی۔ موخر الذکر مارچ میں جو غیر ملکیوں کے لئے تقریر کی گئی وہ بھی میری لکھی ہوئی تھی۔ ان ملین مارچ جلسے اور جلوسوں تک میں بھی کسی ایک پولیس والے کو ایک خراش تک نہیں پہنچائی گئی۔ ان ملین مارچ جلوسوں کے علاوہ بھی کسی مظاہرے، کسی دھرنے، کسی احتجاج میں بھی کسی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور سرکاری ملازمین کو کبھی نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ ان کے دیے گئے روٹ میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جاتی۔ پہلے سے طے شدہ کسی اصول کو توڑا نہیں جاتا۔ ایسے احتجاجوں کے بعد مظاہرین اسی پرامن طریقے سے اپنے گھروں کو واپس لوٹ آتے۔ ان میں سے کوئی بھی آواز نہیں لگاتا کہ اب ہم آ گئے ہیں اور مطالبات کی منظوری تک واپس نہیں جائیں گے ان کو واپس لے جانے کی ذمہ دار بھی وہی قیادت ہوتی ہے جو انہیں لے کر آئی ہوتی ہے۔ جمہوریت صرف حقوق کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی اپنی کچھ اقدار بھی ہوتی ہیں۔ اگر ایک ملک کے شہریوں نے اس کو بطور نظام اپنا لیا ہے تو پھر اس کے قواعد و ضوابط کو بھی پورا کرنا ہو گا۔ ملکی قانون اور آئین کی پاسداری بھی کرنا ہوگی۔ اگر ہم کہتے ہیں کہ قانون ہمیں اجازت دیتا ہے کہ ہم آزادی اظہار رائے کے لئے جلوس نکال سکتے ہیں تو ہمیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ ہماری آزادی کس مقام اور کس جگہ پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ آپ لندن میں ایون فیلڈ یا ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ پر تو مظاہرہ کر سکتے ہیں لیکن اگر آپ پارلیمنٹ ہاؤس، کورٹس، ائرپورٹس یا ملٹری تنصیبات کے بارے میں بھی یہی گمان رکھتے ہیں کہ جلسے کی ویسی ہی آزادی ہے تو آپ کی معلومات ادھوری ہیں۔ کسی بھی یورپی ملک میں آپ پولیس کو اطلاع کیے بغیر جمع نہیں ہو سکتے۔ اگر آپ کے دل میں کسی پولیس والے کو پتھر مارنے یا اسے گھیر کر اپنے لیڈر کے حق میں جبراً نعرے لگوانے کی خواہش سر اٹھا رہی ہے تو پھر آپ کو یاد رکھنا ہو گا کہ رواں سال برطانیہ میں ایک 12 سالہ بچے کو ایک احتجاجی مظاہرے میں پولیس پر پتھر پھینکنے کے الزام میں سزا سنائی گئی ہے نہ صرف بچے کو بلکہ اس کے والد کو بھی چھ ماہ کی پیرنٹنگ آرڈر کے تحت تربیتی پروگرام میں بھیجا گیا ہے۔
یہ کالم ہم سب پر چھپ چکا ہے
Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام
Admin Login
LOGIN
MAIN MENU
کالمز
امیگریشن کالمز
تصاویر
رابطہ
تازہ ترین
فیڈ بیک
Mahmood Asghar Chaudhry
Crea il tuo badge
Mahmood Asghar Ch.