Mahmood Asghar
Choudhary
Home
Columns
Immigration Columns
Pictures
Contacts
Feedback
سوال اور مرزا محمد علی جہلمی ...............13دسمبر 2024
Download Urdu Fonts
سوال علم کی طرف پہلا قدم ہے ۔ لیکن ہم عموماًسوال کرنے سے ڈرتے ہیں کہیں ہمارا مذاق نہ بن جائے ۔کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا کہیں گے ۔ کنفیوشس نے کہا تھا کہ جو شخص ایک سوال پوچھتا ہے، وہ ایک لمحے کے لیے بے وقوف لگ سکتا ہے، لیکن جو شخص سوال نہیں کرتا، وہ ہمیشہ کے لیے بے وقوف رہتا ہے۔ مذہبی حوالوں سے تو سوال کی ہمار ے ہاں گنجائش ہی نہیں ہے کہ کہیں ہم پر مذہب سے دوری کا الزام ہی نہ لگ جائے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سوال جستجو کی پرتیں کھولتے ہیں ۔ آپ مرزا محمد علی جہلمی سے لاکھ اختلاف کر لیں کہ اس کا انداز عالمانہ نہیں ہے ۔ اس کی گفتگو شائستہ لہجے میں نہیں ہوتی ۔ لیکن آپ ا س بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ اس کے سوالوں نے بڑے بڑے عقیدت کے برج ہلا کر رکھ دئیے ۔ صدیوں سے بار بار دھرائے جانے والے ہر قصے کہانی پر، ہر حکایت پر لوگ سوال اٹھانا شروع ہوگئے ۔ عقائد کے حوالے سے جن موضوعات کو چھیڑنا گناہ اور گستاخی کے ذمرے میں آتا تھا وہ اب سوشل میڈیا کا موضوع بن گیا ہے ۔ میں میمز بنانے والی ویڈیوز کے حق میں تو نہیں ہوں ۔ لیکن میں محمد علی کی جانب سے سوال اٹھانے پر اس کے مخالفین کوتلماتے اور پھڑپھڑاتے دیکھ کر ضرور حیران ہوتا ہوں ۔ ایسا نہیں ہے کہ اس کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالوں کے جواب ہوتے ہی نہیں ہیں ۔ لیکن رٹو طوطے اور ایک ہی قسم کے ہمنوا ہجوم میں جو لوگ بڑے آرام سے عقیدت کی افیون لوگوں کو چکھا کر مست رکھتے تھے ۔ اب ان کے بزنس کو سب سے بڑا دھچکا لگا ہے ۔ اس کی ایک بات بہت کمال کی ہے ۔ جب وہ کہتا ہے کہ انہوں نے سواریوں کو تو مدینے کی آواز لگا کر بلایا تھا لیکن یہ انہیں کہیں رستے میں ہی اپنے اپنے پیر خانے میں چھوڑ دیتے ہیں ۔ اس کے سوالوں سے پریشان ہو کر بہت سے نامور علمائے کرام جو کرامات سنا سنا کر اپنے مجمعے کو مدہوش کئے رکھتے تھے ۔ اب جب انہیں اپنے پاؤں کی نیچے سے ریت سرکتی محسوس ہوئی تو وہ ہڑبڑا کر اس کا جواب دینے آئے ہیں لیکن شاید اب بہت دیر ہوچکی ہے ۔ ان کے ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کی صرف و نحومنطق اور پیچیدہ گھتیاں سلجھانے کی فلسفیانہ گفتگو سننے کا زمانہ اب چلا گیا ۔ اب تو ٹک ٹاک کا زمانہ ہے ۔ لوگوں کو آسان بھاشا میں آسان جواب چاہئے ۔جو روایتی پنڈتوں کے بس کی بات نہیں ہے ۔۔ کاش ہمارے معاشرے میں سوال اٹھانے والے اور پیدا ہوں تاکہ خرد کی گھتیاں سلجھیں اور عقیدت کے اندھیرے مندروں میں بیٹھے پروہت باہر نکل کر عام پجاریوں کوسیدھی راہ دکھا سکیں
Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام
Admin Login
LOGIN
MAIN MENU
کالمز
امیگریشن کالمز
تصاویر
رابطہ
تازہ ترین
فیڈ بیک
Mahmood Asghar Chaudhry
Crea il tuo badge
Mahmood Asghar Ch.