Mahmood Asghar

Choudhary

یونان میں ڈوبنے والے پاکستانی بچوں کا قاتل کون ہے ؟ 19دسمبر 2024...
Download Urdu Fonts
یونان میں ڈوبنے والے پاکستانی بچوں کا قاتل کون ہے ؟
ٹی وی پر کچھ سیکنڈ کی نیوز چلی ۔یونان کشتی حادثہ میں درجنوں پاکستانی لاپتہ ۔ تفصیل جاننے کی نہ کسی کو خواہش ہے نہ ضرورت ۔ یونان میں موجود پاکستانی سفیر محترم بتارہے ہیں کہ 47پاکستانی بچا لئے گئے ہیں صرف پانچ لاشوں کی تصد یق ہوئی ہے ۔ لیکن جو کشتی 14 دسمبر کو لیبیا سے روانہ ہوئی تھی اس میں تو 84 افراد سوار تھے ۔ کتنے مرگئے ہیں وہ نہیں بتایا جا سکتا ، کیونکہ جن کی لاش نہیں ملی انہیں مردہ تو نہیں کہہ سکتے ۔ لیکن وہ زندہ ہیں اس بات کا پتہ تو تب ہی چلے گا جب وہ سمندر سے نکل کر فون کریں گے ۔ بچنے والوں نے البتہ بتایا کہ انہوں نے درجنوں ڈوبتے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں ۔
یورپین کوسٹ گارڈ بھی تھک چکے ہیں ، ہر مہینے کوئی واقعہ ہوتا ہے وہ کس کس کو بچائیں ۔ روز روز کے ماتم پر کون آہ وفغاں کرے ۔ ویسے بھی ان کا کون سا کوئی نام ہوتا ہے ۔ ان کی قبر پر کو ن سا کوئی کتبہ ہوتا ہے ۔ سمندر میں ڈوبے ہیں تو کتبہ کیا ان کی قبر بھی نہیں ہوتی ۔ سمند ر بھی ان کو اچھال دیتا ہے ۔ وہ تو بھلا ہو ان مچھلیوں کا جن کے پیٹ کی یہ خوارک بن جاتے ہیں ۔ اب ایسے بے گورو کفن اور بغیر قبر والے مدفون کی موت پر کون اپنی آنکھ نم کرتا پھرے ۔ ملک میں پہلے ہی اتنےگھمبیر مسائل ہیں ۔ معیشت کو سنبھالیں یا سیاسی استحکام کا سوچیں ۔
کیاکہا مرنے والوں میں 18سال سے کم عمر کے بچے بھی تھے؟ تو کیا ہوا یہ ہمار ا مسئلہ تھوڑی ہے ۔یہ وہ ریاست تھوڑی ہے جو بچوں کے حقوق کو سرفہرست رکھے ۔ یہ ان بچوں کے والدین کا قصور ہوگا ۔ جب پیدا کرلئے تھے تو انہیں پالتے بھی ۔ وہ خود گئے تھے اپنی مرضی سے 28لاکھ روپے سے لیکر 33لاکھ روپے تک کی رقم دیکر ۔33لاکھ روپے ریٹ سن کر البتہ ائر پورٹ پر بیٹھے ایف آئی اے کے اہلکار ضرور پریشان ہوگئے کہ ہم نے تو انہیں دو تین سو ڈالر کی رشوت سے چڑھا دیا تھا ۔ ایک دفعہ تو ان کے دل میں بھی خیال آیا ہوگا کہ اب ائرپورٹ سے چڑھانے کا ریٹ بڑھانا ہوگا ۔
مرنے والوں کی تو خبر پھر بھی کچھ سیکنڈ چل گئی لیکن بچنے والوں پر کیا بیتی ۔ یہ اہم نہیں ہے ۔ لیبیا کے کیمپوں میں کیا ہوتا ہے کوئی جاننا نہیں چاہتا ۔ کچھ علاقوں میں سرکاری جیلیں ہیں تو کچھ علاقوں میں مسلح گروہوں کے عقوبت خانے ۔ جہاں کسی کا قانون نہیں چلتا ۔ وہ کئی کئی مہینے جیلوں میں سڑتے ہیں یا اس مافیا کے مہمان بنیں کس کو پرواہ ہے ۔ ان ممالک میں پاکستانی سفیر کیا کریں ۔ سفارت کاری کریں یا انہیں جیلوں سے چھڑاتے پھریں ۔ یہ ان کے اپنے شوق کی چوڑیاں تھیں درد بھی اب وہ خود بھگتیں
بچنے والے سناتے ہیں ایجنٹوں نے جس کشتی پر بندوق کی نوک پر بٹھایا۔ اس کا نہ انجن ٹھیک تھا نہ اس کی واکی ٹاکی نہ ہی اس کا کوئی پروفیشنل ڈرائیور تھا ۔ تو ایسے غیر قانونی سفر میں اچھی کشتی کون بے وقوف بھیجے گا ، کشتی پکڑی گئی تو وہ ان تمام انسانوں سے مہنگی ہے ۔ پروفیشنل ڈرائیور پکڑا گیا تو اس کا لائسنس گیا ۔ جیل ہوئی وہ الگ ۔ تو وہ ایسا ہی کرتے ہیں عموماً انہیں میں سے کسی کو موٹر آن کرکے کشتی اس کے حوالے کر دیتے ہیں کہ پہنچ گئے تو تمہاری قسمت اور ہماری چاندی اور حادثے کا شکار ہوگئے تو پھر تقدیر کا لکھا کون بد ل سکتا ہے ۔
یونائیٹڈ نیشن کا بچوں کے حقو ق کے حوالے سے 20نومبر 1989 کا ایک کنونشن ہے ، 18سال سے کم عمر کے بچے اگر کسی یورپی ملک میں پناہ کی درخواست دیں تو انہیں ملک بدر نہیں کیا جا سکتا ۔ اس قانون کا جتنا زیادہ استعمال پاکستانی ایجنٹ مافیا نے کیا ہے کسی اور قوم نے نہیں کیا ۔ اٹلی ، یونان اور دیگر یورپی ممالک میں شام ، افغانستان ، عراق سمیت کسی جنگ زدہ ملک کے اتنے بچے نہیں پہنچے جتنے پاکستانیوں نے پہنچا دئیے ہیں ۔
مانا پاکستان میں انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہے ۔ اورایسے بیسیوں مزید حادثے بھی پاکستان سے غیر قانونی امیگریشن کو نہیں روک سکیں گے ۔ حکومت اس ایجنٹ مافیا کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہے ۔ یہ سارا کھیل ایف آئی اے کی ناک کے نیچے ہوتا ہے ۔ لیکن کوئی ریڈ لائین ، کوئی لکیر نہیں کھینچی جا سکتی ۔ خدا کی پناہ دہشتگردوں سے لیکر غنڈ وں اوربدمعاشوں سے لیکر مافیا ڈانو ں تک کا بھی اصول ہوتا ہے کہ وہ عورتوں اور بچوں پر کمپرومائز نہیں کرتے ۔ کیا ایف آئی اے آفیسران اور ہمارے حکام اتنے گئے گزرے ہیں کہ وہ کم از کم اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کے بارے میں ہی زیرو ٹالیرینس کی پالیسی بنا لیں ۔ ان ایجنٹوں کو پیغام پہنچا دیں کہ بچوں کے معاملے میں کوئی رشوت نہیں لیں گے ۔
کیا بچے ریاست کی ذمہ داری نہیں ہوتے ۔ کیا انہیں ایسے کسی سفر سے روکنا صر ف والدین کی ہی ذمہ داری ہے ، کیا ریاست خود محافظ نہیں بن سکتی ۔ کیا ان بچوں کی قاتل ایف آئی اے نہیں ہے ۔کراچی ائرپورٹ انتظامیہ نہیں ہے ۔ کیا ریاست کے کسی ادارے کے خلاف کسی عدالت میں مقدمہ قائم نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ یونان میں ڈوبنے والے ان بچوں کو لیبیا تک فلائی کس نے کرایا تھا ۔
یہ کالم ہم سب پر مورخہ 19دسمبر 2024کو چھپ چکا ہے



Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN