Mahmood Asghar
Choudhary
Home
Columns
Immigration Columns
Pictures
Contacts
Feedback
مریم کا مصافحہ اور تلور کا شکار
Download Urdu Fonts
میرے گاؤں فتح پور کے بارے میں تحریری طور پربہت کم ملتا ہے۔ مجھے بھی افسوس ہے کہ میں بھی اس بارے کچھ خاص نہیں لکھ سکا۔ البتہ ایک دفعہ گاؤں کے ایک لکھاری منور خورشید صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ بہت ضعیف ہوچکے تھے ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ فتح پو رکے لوگ کیسے تھے ۔ تو ان کے چہرے پر گاؤں کی محبت جگمگا اٹھی کہنے لگے کہ ان کے بچپن میں ایک دفعہ گاؤں میں مرغابیوں کا ایک جھنڈ آیا ہوا تھا ۔ گاؤں کے بڑوں نے فیصلہ کیا کہ ان کا شکار کھیلا جائے ۔وہ بندوقیں لیکر چھپڑ پر پہنچے ۔ ابھی وہ نشانہ باندھ ہی رہے تھے کہ گاؤں کی ایک بزرگ خاتون وہاں سے گزری ۔ کہنے لگا ۔۔ پترا کیوں ان کو مارتے ہو، یہ بے چارے پنچھی کئی میلوں کا سفر کر کے آپ کے ملک پہنچے ہیں پردیسی ہیں بے چارے سردی سے پناہ لینے آئے ہیں ۔۔ یہ بات لوگوں کے دل میں گہری چوٹ کی طرح پیوست ہوگئی ۔ اتنا سننا تھا کہ وڈیروں نے اپنی اپنی بندوقیں بغل میں دبائیں اوراس بزرگ خاتون کی بات مانتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ۔ پاکستان میں سیاسی واخلاقی شعور اس نچلی سطح پر پہنچ چکا ہے کہ ہمیں یہ نہیں یہ پتہ کہ احتجاج کس بات پر کرنا ہے ۔ جس بات پر شور مچانا چاہئے جس بات کا مطالبہ کرنا چاہئے اور جس بات پر حکومت سے احتجاج کرنا چاہئے کہ تلو رپر شکار کی اجازت کیوں دی جارہی ہے اس کا تذکرہ سوشل میڈیا سے غائب ہے ۔ البتہ اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ مریم نواز نے ایک مرد سے مصافحہ کیوں کیا؟ کوئی مریم نواز اور اس کے چاچا جی سے یہ سوال نہیں کررہا کہ اتنے معصوم جانور جن کے شکار پر دنیا بھر میں پابندی ہے ۔ جو معصوم تلورسردیوں کے موسم میں قازقستان اور منگولیا سے ہجرت کر کے ہمارے ملک میں پناہ کیلئے آتے ہیں ۔ ان کا شکار کرنا اور انہیں قتل کرنے کی اجازت دینے کی ضرورت کیا ہے ۔ شرمندگی کی بات ایک مصافحہ نہیں ہے کہ بلکہ شرمندگی کی بات شکار پر آئے ایک بادشاہ کواتناخصوصی پوٹوکول دینا ہے کہ ملک کا وزیر اعظم خود ان کا استقبال کرنے ۔ پہنچے ۔ شرمندگی کی بات ایک معصوم پردیسی پناہ گزین پرندے کی جان لینا ہے ۔ شرمندگی کی بات ہینڈ ہگ نہیں ہے بلکہ یہ جاننا ہے کہ اس جانور کا گوشت ایک ایسے دوائی کے لئے استعمال ہوتا ہے جو قوت باہ میں اضافہ کرتی ہے ۔ شرمندگی کی بات یہ ہے کہ ہماری ان سرزمینوں کے ٹکڑوں پر بیرونی بادشاہ اپنی سیکورٹی اپنا علاقہ اور اپنا عملہ استعمال کرتے ہیں ۔ واقعہ کربلا کے بعد ایک شخص ایک عالم کے پاس پہنچا اور پوچھنے لگا کہ مجھ سے غلطی سے کچھ چیونٹیوں کا قتل ہوگیا اس کا ہدیہ کیا ہے آپ نے کہا ارے ظالم تیرے شہر میں خانوادہ رسول قتل ہوگیا اور تو اب اس کا فتوی پوچھنے آگیا ہے ہماری بھی یہی حالت ہے ۔ہمارا مذہبی ہیضہ ہمیں اصل حقائق کی جانب دیکھنے ہی نہیں دیتا ۔ اور ہم فضولیات پر وقت صرف کر کے انہیں ٹاپ ٹرینڈ بناتے ہیں
Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام
Admin Login
LOGIN
MAIN MENU
کالمز
امیگریشن کالمز
تصاویر
رابطہ
تازہ ترین
فیڈ بیک
Mahmood Asghar Chaudhry
Crea il tuo badge
Mahmood Asghar Ch.