Mahmood Asghar
Choudhary
Home
Columns
Immigration Columns
Pictures
Contacts
Feedback
فرنچ کس... یکم جنوری 2025.
Download Urdu Fonts
فرنچ کس
یورپ پر جتنے بھی سفرنامے اردو میں لکھے جاتے ہیں ۔ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا افسانہ ہو جس میں لکھاری کوسفر میں کوئی نہ کوئی عورت نہ مل جاتی ہو ۔ جو اس پر فریفتہ ہوجاتی ہے ۔ جو اسے گلے لگا لیتی ہے اور جاتے ہوئے اس کے گالوں پر چٹاخ قسم کے بوسے نہ دیتی ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ آکر رہائش اختیار کرنے والے ہر شخص کے ذہن میں یہ خیال حق الیقین کی طرح بیٹھ چکا ہوتا ہے کہ وہ یورپ پہنچے گا تو ائیر پورٹ سے نکلتے ہی کوئی نہ کوئی حسینہ اسے گلے لگانے کے لئے بیتاب ہوگی ۔ پاکستان میں یورپ کا لفظ بے حیائی کااس طرح متبادل خیال کیا جاتا ہے کہ گاؤں یا شہر میں کچھ محلوں کو بھی لوگ یورپ محلہ قرار دے دیتے ہیں۔ جب وہی نوجوان یورپ پہنچتا ہے تو ا سکی امیدیں اس وقت دم توڑ جاتی ہیں جب اسے پتہ چلتا ہے کہ یہاں مکان کے کرائے سے لیکر دیگر بلوں کو ادا کرنے اور گھر والوں کا قرضہ اتارنے میں جوانیاں دیمک زدہ لکڑی کی طرح کھائی جاتی ہیں ۔اس لئے جاڑے کی ٹھٹھرتی سحر سے لیکر دھندلکوں کی شام تک جب وہ شفٹ میں کام کرتا ہےاور سورج اسے کئی کئی مہینے نظر نہیں آتا تو اس کی ساری رومانویت دم توڑ جاتی ہے ۔ یہاں آکر اسے پتہ چلتا ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی ایسی ہے کہ اگر عورت کی مرضی نہ ہو تو اسے چھونا تو دور بلاوجہ گھورنے کی عیاشی بھی موجود نہیں ہے ۔پھر اچانک اسے پہلے رہنے والے بتاتے ہیں کہ صرف ایک ہی رات ایسی ہے جب تم عورت کو چھونے کی عیاشی کر سکتے ہو اور وہ ہے نیو ائیر نائٹ ۔ اس رات یہ لوگ ایک دوسر ے کی گالوں سے گال لگا کر ہیپی نیو ائیر وش کرتے ہیں ۔حالانکہ یورپ میں خوشی کے موقع پر گالوں سے گال لگاکر وش کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے ۔ شادی والے دن بھی دلہن ہر شخص کے گالوں سے گال لگا کرمبارکباد وصول کرتی اور شکریہ ادا کرتی ہے ۔ لیکن شادی پر بھی ان بے چارے غیر ملکیوں کو کون بلاتا ہے اس لئے ان کے پاس بس ایک ہی دن رہ جاتے جس دن وہ اس ''سہولت '' اور عارضی ''التفات '' سے استفادہ کر سکتے ہیں اور وہ ہے نیو ایئر نائٹ ۔اسی لئے اس دن پیرس کا شانزے لیزے ہو یا میلان کا دومو ،بارسلونا کا رامبلہ ہو ،فرینکفرٹ کا رومرہو ، یا لندن آئی یورپی شہریوں سے بھی زیادہ اس دن تمام ترسے ہوئے غیر ملکی اس نیت سے وہاں پہنچ جاتے ہیں کہ آج تو کہیں نہ کہیں سے گالوں سے گال ملانے والا بوسہ مل ہی جائے گا۔ نیو ایئرنائٹ پر جمع ہوئے لوگ شراب کے نشے میں اتنے دھت ہوجاتے ہیں کہ بعض لوگوں کو یہ امید بھی ہوتی ہے کہ گالوں سے کھسکے والا بوسہ پھسل کر شاید فرنچ کس میں تبدیل ہوجائے ... ۔ ایسی ہی ایک نیو ائیر تقریب پیرس کے شانزے لیزے میں منعقد تھی ۔ اس تقریب میں پاکستانی پناہ گزین مٹھی کانا بھی پہنچ گیا ۔ وہ کئی مہینوں سے اس رات کے انتظا ر میں تھا کہ آج کی رات اس کی حسرت پوری ہوگئی ۔ مٹھی کانا کا دعوی تھا کہ اگر کسی گوری نے اس کے گالوں سے گال لگا دیا تو وہ بوسہ صرف وہاں تک نہیں رہنے دے گا ۔ اس نے ڈینگ ماتے ہوئے کہا کہ ہم جس کو مٹھی دے دیں تو پھر اس کو داسی بنا لیتے ہیں ۔ کہنے لگا صرف گالوں سے گال لگانے والی پپی کون سی ہوتی ہے بھلا؟ دوستوں نے بہت سمجھایا کہ ''سن مٹھی ان تقریبات میں پولیس کی بھاری نفری موجود ہوتی ہے اس لئے احتیاط لازمی ہے'' لیکن مٹھی کانا آج خود بھی'' گھٹ'' لگا کر آیا تھا ۔ اور بڑے زور و شور سے کہہ رہا تھا ۔ ہم اشتہاری ہو کر ملک سے نکلے تھے ۔ ہمیں پاکستان کی پولیس نہیں پکڑ سکی یہ فرنچ پولیس کیا کر لے گی ۔ فرانس میں آئیں اور فرنچ کس نہ کریں بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی ۔ دوستوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس سے ذرا بچ کے رہنا ہوگا ۔ یہ ہمیں بھی مروائے گا ۔
گھڑی پر بارہ بجنےمیں دس سیکنڈ رہ گئے تو الٹی گنتی شروع ہوئی ۔ مٹھی تلاش میں تھا کہ کوئی حسینہ ملے جسے وہ فوراً پکڑ کر وش کرے اورحقیقی آزادی کا لطف اٹھا سکے ۔ لوگوں کا شور مچ گیا۔ پانچ ، چار ، تین ، دو ، ایک اور اس کے بعد ہی آتش بازی شروع ہوگئی اورہیپی نیو ائیر کی صدائیں بلند ہوئیں ۔ لوگ ایک دوسرے سے گلے ملے اور گالوں سے گال لگا کر نئے سال کی مبارکباد وش کرنے لگے ۔ اسی وقت مٹھی ایک سنہری بالوں والے بدن کے پاس پہنچ چکا تھا ۔ سنہری بالوں والی نشے میں اتنی دھت تھی کہ باقاعدہ لڑکھڑا رہی تھی ۔ اس پر مٹھی کو یقین ہوگیا تھا کہ یہ گالوں سے گال لگانے والے اگلا سفر بھی آسانی سے طے کر لے گا اور پولیس کو بھی پتہ نہیں چلے گا ۔ سنہرے بالوں والے جسم کو دیکھ کر مٹھی کانا خوش تھا کہ وہ ڈیرےپر سب دوستوں کو بتائے گا کہ اس نے بلانڈ لڑکی کو فرنچ کس کیا ہے ۔ مٹھی کانیے نے اس کے گالوں سے گال لگائے اورفرنچ کس کرنے تک کے باقی کا فاصلہ طے کرنے میں اسے کوئی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا ۔ اور اس نے اپنے عمل سے فارغ ہو کر پرجوش نعرہ لگایا اور دوستو ں سے مخاطب ہو کر کہا دیکھ پھر مٹھی کا کما ل اسے کہتے ہیں مٹھی لینا اور مٹھی دینا ۔ مٹھی اس خواہش کی تکمیل کے بعد واپس مڑنے ہی والا تھا کہ سنہری بالوں والے نشے میں مدہوش جسم نے اسے پیچھے سے آکر گلے لگالیا ۔ مٹھی بھی نشے میں مست تھا ۔ کہنا لگا سوہنیو ایک واری فیر ۔ نشے میں مست سنہری بالوں والی نے جب مٹھی کی گالوں کے ساتھ گال لگا کر دوبارہ رگڑا تو اسے پہلے بار احساس ہوا کہ اس کی باقاعدہ شیو بھی بڑی ہوئی تھی ۔ ایک تیز لیزر روشنی اندھیر میںصبحکا منظر بنا گیا اس نے غور سے دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ وہ سنہری بالوں والا جسم کوئی لڑکی نہیں بلکہ لڑکا تھا ۔ دوستوں نے پیچھے سے قہقہہ لگایا ۔ مٹھی مبارک ہو تم داسی بنانے آئے تھے ۔ داس مل گیا۔۔۔۔۔ مٹھی نے بس ''او تواہڈی''کہا اور دوڑ لگا دی ۔۔
#محموداصغرچودھری
Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام
Admin Login
LOGIN
MAIN MENU
کالمز
امیگریشن کالمز
تصاویر
رابطہ
تازہ ترین
فیڈ بیک
Mahmood Asghar Chaudhry
Crea il tuo badge
Mahmood Asghar Ch.