Mahmood Asghar

Choudhary

جب تیرہ سالہ بچے قاتل بننے لگیں‌.... 11 اپریل 2025
Download Urdu Fonts
جب تیرہ سالہ بچے قاتل بننے لگیں
کیا آپ واقعی اپنے بچے کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں؟ یعنی اس کے دوست کون ہیں، وہ کن سے رابطے میں ہے، اس کی سنگت کیسی ہے، وہ کیا سوچتا ہے، اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہے؟ اگر آپ کے بچے کے پاس اسمارٹ فون موجود ہے تو سچ پوچھیں، آپ اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ وہ چاہے آپ کے ساتھ والے صوفے پر بیٹھا موبائل کی اسکرین پر نظریں جمائے ہو، مگر آپ کو یہ علم نہیں کہ اس کے دل و دماغ میں کیا چل رہا ہے، وہ کس خلفشار اور ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ ہماری اور ہماری اولاد کی نسل کے درمیان وقت کی نہیں، ذہنوں کی صدیوں پر محیط خلیج پیدا ہو چکی ہے۔ اس فاصلے کا اندازہ آپ کو حال ہی میں نیٹ فلیکس پر ریلیز ہونے والی سیریز "ایڈولسنس" دیکھ کر بخوبی ہو جائے گا۔
یہ سیریز ریلیز کے پہلے ہی چند دنوں میں تین اعشاریہ دو چار ملین ویوز حاصل کر چکی ہے اور اپنی نوعیت کی ایک منفرد اور چونکا دینے والی کاوش ہے۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے نہ صرف اس کی تعریف کی بلکہ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ یہ سیریز تمام ہائی اسکولوں میں مفت دکھائی جائے گی تاکہ والدین، اساتذہ اور طلبہ اس میں چھیڑے گئے موضوعات پر کھل کر گفتگو کر سکیں۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ایک تیرہ سالہ لڑکا ہے جو اپنی ہم جماعت لڑکی کو قتل کر دیتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ اس کی وجہ حیرت انگیز اور خطرناک ہے۔ وہ انسٹاگرام پر ایسے گروپس کا رکن بن جاتا ہے جو عورتوں سے نفرت پھیلانے والے نظریات کو فروغ دیتے ہیں۔ وہاں اسے سکھایا جاتا ہے کہ عورتیں جھوٹی، مکار اور مفاد پرست ہوتی ہیں، اور وہ صرف خوبصورت یا دولت مند مردوں کو پسند کرتی ہیں۔ یہ باتیں ایک کم عمر ذہن پر ایسے اثر ڈالتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو کمتر محسوس کرنے لگتا ہے، اور اسی احساس کمتری سے نکلنے کے لیے وہ کوئی ایسا عمل کرنا چاہتا ہے جس سے وہ خود کو طاقتور محسوس کر سکے۔
ایسے گروپس بچوں کو یہ زہر دیتے ہیں کہ مرد وہی ہے جو عورت پر رعب ڈالے، اسے کنٹرول کرے، ورنہ عورتیں اسے مرد ہی نہیں سمجھتیں۔ یہ باتیں سن کر وہ بچہ خود کو ثابت کرنے کے چکر میں اس حد تک جا پہنچتا ہے کہ قتل جیسا سنگین جرم کر بیٹھتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ تیرہ سال کی عمر، جس میں ہم دو جمع دو چار سیکھا کرتے تھے، آج کا بچہ اسی عمر میں اس سوچ کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے کہ اس کی سوشل میڈیا پوسٹ پر کتنے لائکس آئے، کون سی لڑکی نے مذاق اُڑایا، کس نے دل کا ایموجی بھیجا اور وہ دل کس رنگ کا تھا۔ جی ہاں، اب ایموجی کے رنگ بھی بحث کا موضوع بن چکے ہیں۔ سرخ دل کچھ اور مطلب رکھتا ہے، پیلا کچھ اور۔ یہ چھوٹی سی عمر میں ذہنی پیچیدگیوں کا ایسا جال ہے جسے ہم والدین یا اساتذہ چاہ کر بھی مکمل طور پر سمجھ نہیں سکتے۔
اس ساری صورت حال کا واحد حل بچوں سے مکالمہ ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ ہم نے ان سے بات کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر بچہ موبائل میں مصروف ہے تو ٹھیک ہے، وہ ہمیں تنگ نہیں کر رہا۔ لیکن ہم نہیں جانتے کہ یہی تنہائی اور خاموشی اس کے اندر کیا کچھ پیدا کر رہی ہے۔ یہی سیریز ہمیں سکھاتی ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھنی ہوگی۔ وہ انسٹاگرام پر کن گروپس میں شامل ہیں، کس قسم کی باتیں سن اور سیکھ رہے ہیں، آن لائن گیمز کے ذریعے ان کے ذہن میں کیا کچھ انڈیلا جا رہا ہے — ان سب چیزوں سے باخبر رہنا اب ایک ضرورت ہے، شوق نہیں۔ اگر ہم نے نظر نہ رکھی تو وہی اسمارٹ فون جو ہم نے بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے دیا تھا، ایک دن قاتل آلہ بن سکتا ہے۔
اس سیریز کے لکھاری کی تعریف تو بنتی ہے کہ اس نے ایک نازک اور حساس مسئلہ اٹھایا، مگر اس کی ہدایت کاری کا بھی جواب نہیں۔ یہ چار اقساط پر مشتمل سیریز ہے اور ہر قسط چالیس منٹ کی ہے — اور حیرت کی بات یہ ہے کہ پوری قسط بغیر کسی کٹ کے فلمائی گئی ہے۔ یعنی پورا سین، پورا تسلسل، ایک ہی شاٹ میں۔ سوچیں، ٹیم کتنی تیاری سے آتی ہوگی، اور کیمرہ مین سے لے کر اداکار تک سب کو بغیر غلطی کیے پورا سین مکمل کرنا پڑتا ہوگا۔ جو لوگ فلم سازی، ڈائریکشن یا سینماٹک ٹیکنیک سے شغف رکھتے ہیں، ان کے لیے یہ سیریز ایک بصری درس گاہ ہے۔
اگر آپ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف کسی ایک ملک یا ایک معاشرے کا مسئلہ ہے تو معاف کیجیے، آپ ابھی بھی ماضی کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی اس عالمی دنیا میں آج ہر بچہ، ہر نوجوان اور ہر بالغ، اس ٹیکنالوجی کے دیو ہیکل اژدھے کے حلق میں ہے — اور ہمیں نہ صرف اپنے بچوں کو بچانا ہے بلکہ خود بھی جاگنا ہے، کیونکہ اگر ہم نے آنکھ نہ کھولی، تو یہ موبائل ایک دن آنسوؤں سے بھیگا ہوا کوئی نوٹ چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے خاموشی دے جائے گا۔



Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN