Mahmood Asghar

Choudhary

اقوامِ متحدہ میں پاکستان کا ابھرتا ہوا کردار.... 9 جون 2025
Download Urdu Fonts
اقوامِ متحدہ میں پاکستان کا ابھرتا ہوا کردار — دہشتگردی کے خلاف قیادت کی نئی ذمہ داریاں لگتا ہے 2025ء کا سال پاکستان کے لیے ایک نئی اڑان کا پیغام لے کر آیا ہے۔ جیسے کسی بزرگ نے دعا دے دی ہو کہ "بیٹا، اب تم کچھ بھی کرو، اس میں برکت ہی برآمد ہوگی"۔ کچھ فیصلے ایسے ہو رہے ہیں جیسے شر کے پردے سے خیر پھوٹ رہا ہو۔ ادھر ہم نے اُنگلی اٹھائی، اُدھر دنیا نے سلامی دے دی۔ پڑوس میں صفِ ماتم بچھی ہے کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟
جون 2025 کا آغاز پاکستان کے لیے ایک غیر معمولی سفارتی کامیابی لے کر آیا۔ اقوامِ متحدہ کی 1988 طالبان پابندی کمیٹی کی سربراہی پاکستان کو سونپی گئی ہے، اور ساتھ ہی اقوامِ متحدہ کی انسداد دہشتگردی کمیٹی میں پاکستان کو نائب صدر کا منصب بھی دیا گیا ہے۔ یہ وہی پاکستان ہے جسے کبھی عالمی برادری شک کی نگاہ سے دیکھتی تھی — شدت پسندی کے الزامات، دوہرا کردار، اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں دھکیلا گیا ملک — آج وہی ملک اقوامِ عالم کے اعتماد کی علامت بن کر ابھرا ہے۔
طالبان پر سفری پابندیاں، اثاثے منجمد کرنے اور اسلحے کی ترسیل پر کنٹرول جیسے نازک معاملات اب پاکستان کی نگرانی میں انجام پائیں گے۔ یہ صرف کاغذی یا رسمی ذمہ داریاں نہیں، بلکہ اقوامِ متحدہ کی پالیسی سازی میں عملی قیادت کا ثبوت ہیں۔ دنیا اب پاکستان سے صرف توقع نہیں، جواب دہی بھی چاہے گی — اور یہی اصل چیلنج ہے۔
اسی دوران بیجنگ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی برسوں کی سفارتی سردمہری ختم کرنے کے لیے ایک اہم اجلاس ہوا، جس میں دونوں ممالک نے دوبارہ سفیروں کی تقرری پر اتفاق کیا۔ پاکستان نے افغانستان کو چین-پاکستان اقتصادی راہداری میں شامل ہونے کی کھلی پیشکش بھی دی۔ یہ علاقائی استحکام کی سمت ایک ایسا قدم ہے جو نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی کی پختگی کا ثبوت ہے بلکہ چین کی معاونت سے افغانستان میں امن کی نئی راہیں بھی کھول سکتا ہے۔ تیسری طرف، آج ہی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مجوزہ ٹریول بین لسٹ سامنے آئی ہے — اور اس بار پاکستان اس فہرست سے باہر ہے۔ انڈین میڈیا میں جیسے صفِ ماتم بچھ گئی ہو۔ وہاں انگلیاں دانتوں تلے دبی ہیں کہ یہ سب کچھ ہو کیسے رہا ہے؟ پاکستان، جسے کبھی دنیا گرے لسٹ میں ڈالنے کی بات کرتی تھی، آج عالمی سفارت کاری میں نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ اور شاید یہی وہ وقت ہے جب بلاول بھٹو زرداری کے دورہ امریکا کے اثرات اب سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں — وہی بلاول، جنہوں نے مودی پر طنز کرتے ہوئے عالمی سطح پر ایک جملہ مقبول بنا دیا:
"موذی نتین یاہو کا سستا ورثن ہے!" آج یہ جملہ صرف طنز نہیں، بلکہ جنوبی ایشیا میں بدلتی ہوئی عالمی ترجیحات کا ترجمان بن چکا ہے۔ غالب کا ایک مصرع یاد آتا ہے:
"ایک نجومی نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے!"
یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں۔ یہ ایک سفارتی تبدیلی، ایک سوچ کا بدلاؤ اور عالمی بیانیے میں ایک نیا موڑ ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ ایک نازک موقع بھی ہے — ایک ایسا موقع جو اقوام کو شاذ و نادر ہی ملتا ہے۔ اگر ہم نے اسے دیانت، حکمت اور بصیرت سے استعمال کیا، تو نہ صرف دنیا کی نظر میں پاکستان کی ساکھ بہتر ہوگی بلکہ خطے میں امن، ترقی اور وقار کے نئے در بھی کھلیں گے۔
دنیا نے ہمارے لیے دروازہ کھول دیا ہے — اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس میں قدم رکھتے ہیں یا ایک اور موقع ضائع کر بیٹھتے ہیں۔
تحریر: محمود اصغر چودھری



Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN