Mahmood Asghar

Choudhary

وکٹم بلیمنگ ... قومی ضمیر ... 28 جون 2026
Download Urdu Fonts
وکٹم بلیمنگ — ہمارا قومی ضمیر یہ عجیب سا المیہ ہے، شاید المیہ بھی نہیں، ایک اجتماعی بےحسی ہے... جو ہماری روح میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں کسی بھی حادثے، کسی بھی سانحے کے فوراً بعد سب سے پہلے جو انگلی اٹھتی ہے، وہ متاثرہ فرد کی طرف ہوتی ہے۔ جیسے ظلم سہنا ہی سب سے بڑا جرم ہو۔ مری میں برف باری دیکھنے جانے والے لوگ مر گئے... ہم نے ایک پل کو بھی نہ سوچا کہ حکومت کیا کر رہی تھی، ادارے کہاں تھے؟ ہم نے فوراً کہا، "یہی لوگ قصوروار ہیں، وہاں گئے ہی کیوں تھے؟" کسی عورت کو ہراسانی کا سامنا ہو، تو ہم فوراً فیصلہ سنا دیتے ہیں، "اسے باہر نکلنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ لباس ایسا کیوں تھا؟ وقت کا خیال کیوں نہ کیا؟" سترہ سال کی ایک بچی گھر بیٹھی ٹک ٹاک ویڈیو بناتی ہے، کوئی دروازہ توڑ کر اندر گھستا ہے، اس کی جان لے لیتا ہے — اور ہمارے منہ سے جو پہلا جملہ نکلتا ہے، وہ یہ نہیں ہوتا کہ قاتل کو پھانسی دو، بلکہ یہ ہوتا ہے: "ٹک ٹاک کیوں بنائی؟" اور ابھی اسی ہفتے، سوات کے سیلابی ریلے میں ایک خاندان، ایک ننھا بچہ، ایک باپ، ایک ماں، ایک پیاسی آنکھوں والی بچی... سب کے سب ایک ٹیلے پر ڈیڑھ گھنٹہ موت کے دہانے پر کھڑے رہے۔ ان کی آنکھیں آسمان کی طرف، شاید ہماری طرف تھیں، کہ کوئی آئے گا، کوئی بچا لے گا۔ لیکن کوئی نہ آیا۔ جب وہ ڈوب گئے، بہہ گئے، مر گئے — تو بھی ہمارا ردِعمل یہی تھا: "وہ وہاں گئے ہی کیوں تھے؟" دنیا میں بھی حادثے ہوتے ہیں، لیکن وہاں وزراء استعفیٰ دیتے ہیں، اداروں کے سربراہ شرمندگی سے گھر لوٹ جاتے ہیں، ضمیر ان کا پیچھا کرتا ہے، نیند ان کی آنکھوں سے روٹھ جاتی ہے۔ ہم سے سوال بنتا ہے: کیا وہ بےوقوف ہیں؟ کیا ان کا ضمیر ہم سے مختلف ہے؟ کیا وہ بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ "قصور تو متاثرہ فریق کا ہی ہے"؟ وہ کہہ سکتے ہیں، لیکن وہ کہتے نہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہر حادثہ ایک قتل ہوتا ہے — اور ہر قتل کا کوئی نہ کوئی قاتل ضرور ہوتا ہے، چاہے وہ لاپرواہی کی شکل میں ہو یا بےحسی کے روپ میں۔ وہ گیلا فرش ہو تو بورڈ لگا دیتے ہیں، کہ پھسلنے کا خطرہ ہے۔ وہ گرم پانی کا نل ہو تو خبردار کرتے ہیں: محتاط رہیں۔ اور ہم؟ ہم صرف تقدیر کو کوستے ہیں، اور مظلوم کو۔ اگر ہر چیز نصیب اور قسمت پر ڈالنی ہے، تو پھر ریسکیو ادارے بند کر دو۔ اگر آپ کے اہلکار کو تیراکی نہیں آتی، تو وہ وردی کیوں پہنے ہوئے ہے؟ اگر ڈیڑھ گھنٹے تک کوئی بندوبست نہ ہو سکے، تو ہمیں بتا دیں، ہم اپنے ٹیکس کی رقم بچا لیں۔ لیکن جب دھرنا ہوتا ہے، جب سیاسی جلسہ ہوتا ہے، تو انہی اداروں کی کرینیں، انہی کی بسیں، انہی کے ہیلی کاپٹر کام آ جاتے ہیں۔ تو مان لیں... آپ جھوٹے ہیں۔ مسئلہ وسائل کا نہیں، مسئلہ نیت، غیرت اور انسانیت کا ہے۔ اور جب وہ لاشیں آخرکار پانی سے نکالی گئیں، تو ان کی بےحرمتی کی انتہا یہ ہوئی کہ انہیں کوڑا اٹھانے والی گاڑیوں میں رکھ کر روانہ کیا گیا۔ ہم انہیں زندگی کی عزت تو نہ دے سکے، وقت نہ تھا، جذبہ نہ تھا، مگر موت کے بعد بھی ان کی بےعزتی کر کے گویا آخری وار مکمل کر دیا۔ یہ سب پڑھتے ہوئے اگر دل نہیں کانپتا، تو شاید ہم سب مر چکے ہیں — صرف دفن ہونا باقی ہے۔



Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN