Mahmood Asghar
Choudhary
Home
Columns
Immigration Columns
Pictures
Contacts
Feedback
برطانیہ میںرضا مندی سے موت کا قانون ... 21 جون 2025
Download Urdu Fonts
برطانیہ میں بھی رضا مندی سے موت چننے کا قانون پاس ہو گیا ہے۔ اب کسی کو خودکشی کرنے کے لیے سوئٹزرلینڈ جانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ یہ سہولت اب برطانیہ میں ہی میسر ہوگی۔ 20 جون 2025ء کو برطانوی پارلیمنٹ نے ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے۔ ناقابل علاج مریضوں کو اپنی زندگی ختم کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ یہ قانون 291 کے مقابلے میں 314 ووٹ سے منظور کیا گیا ہے۔
اس قانون کے تحت ایسے مریض جن کی عمر 18 سال سے زائد ہو، اور جنہیں ڈاکٹر یہ بتا چکے ہوں کہ ان کی زیادہ سے زیادہ عمر 6 ماہ باقی ہے، اگر وہ ذہنی طور پر فیصلہ کرنے کے قابل ہوں، تو انہیں اپنی زندگی ختم کرنے کی قانونی اجازت دی جا سکے گی۔ مریض کو دو مرتبہ تحریری طور پر درخواست دینا ہو گی، جسے دو الگ ڈاکٹروں کی منظوری درکار ہوگی۔ اس کے بعد ایک قانونی پینل اس کی جانچ کرے گا۔ اجازت ملنے کی صورت میں مریض کو مخصوص ادویات دی جائیں گی جنہیں وہ خود اپنی مرضی سے استعمال کر سکتا ہے۔ اس عمل میں کسی دوسرے فرد کی مداخلت جرم ہو گی، اور اگر کوئی زبردستی یا فریب سے درخواست کروائے گا تو اسے 14 سال قید کی سزا دی جائے گی۔
اگرچہ یہ بل ابھی ہاؤس آف لارڈز سے منظوری کے مراحل سے گزرے گا، لیکن اس کی منظوری نے طویل عرصے سے جاری اخلاقی، مذہبی اور قانونی بحث کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔
ایک سروے کے مطابق برطانیہ میں 70 فیصد لوگ اس قانون کے حامی ہیں، جبکہ صرف 15 فیصد مسلمان شہری اس کے حق میں ہیں۔ پارلیمنٹ میں موجود مسلم اراکین میں سے صرف دو نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔
یہ قانون، جسے یوتھینیشیا بھی کہا جاتا ہے، دنیا کے لیے نیا نہیں اور نہ ہی اس پر بحث نئی ہے۔ اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی موت بھی باوقار طریقے سے خود چنے، اگر اس کی زندگی مسلسل اذیت بن جائے۔ لیکن مسلمانوں کے تقریباً تمام مکاتبِ فکر اس قانون کے خلاف ہیں کیونکہ اسلام زندگی کو اللہ کی امانت سمجھتا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے:
"اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہے" (النساء: 29)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"جس نے پہاڑ سے گر کر اپنی جان لی، وہ جہنم میں ہمیشہ گرتا رہے گا۔"
فقہاء کے نزدیک حتیٰ کہ اگر کوئی شخص خود اجازت دے، تب بھی جان لینا قتل کے زمرے میں آتا ہے۔
اس سلسلے میں میری یوکے اسلامک مشن کے مہتمم، اقبال بدوی صاحب سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ احادیث میں دو واقعات ایسے ملتے ہیں کہ جن میں دو اشخاص نے جنگ کے دوران زخمی ہونے پر درد کی شدت کی بنا پر اپنی جان خود لے لی تو اللہ کے نبی ﷺ نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور ان کے لیے جہنم کی وعید سنائی۔ ان کا موقف تھا کہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ دنیا میں انسان کو جتنی بھی تکالیف یا آزمائشیں آتی ہیں وہ آخرت کے درجات کی بلندی کا باعث بنتی ہیں ۔ قرب خداوندی کے لئے بعض دفعہ انسان عبادت سے وہ مقام حاصل نہیں کر سکتا جو آزمائش سے حاصل کر لیتا ہے ۔ اور جہاں تک بات کسی مفلوج مریض کی خدمت کی تو اس پر اللہ نے بے حساب اجر رکھا ہے ۔بزرگ افراد کی موجودگی باعث برکت ہوتی ہے ۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی کی تعظیم میں سے یہ بھی ہے کہ مسلمان بزرگ کی تعظیم کی جائے ۔ اسلام کسی انسان تو کیا کسی جانور کو بھی نا حق مارنے کی اجازت نہیں دیتا ۔
دوسری جانب پاکستان سے ایک ترقی پسند عالم دین حافظ صفوان صاحب سے بات ہوئی تو وہ اس قانون کے حامی ہیں ۔ ریفرینس میں انہوں نے صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2822 پیش کی جس میں اللہ کے نبی ﷺ نے '' ارذل العمر ''یعنی نکمی اور کمزور عمر سے پناہ کی دعا مانگی ہے ۔ ان کا موقف یہ تھا کہ اگر کوئی ایسی مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے جو نہ صرف اس کے لئے بلکہ دوسروں کے لئے اذیت ناک بن چکی ہے تو اس سلسلے میں ڈاکٹر کی رائے کو اہمیت دینی چاہئے ۔وہ کہتے ہیں کہ جیسے وقت کے ساتھ ہمارے علماء نے خون کا عطیہ اور اعضا کی پیوند کاری کو بھی مان لیا، ایسے ہی یہ معاملہ بھی وقت کے ساتھ سمجھا جا سکے گا۔ان کا کہنا تھا کہ میرا موقف بس اتنا ہے کہ یہ ڈاکٹروں اور جدید سائنس کا مسئلہ ہے، اسے علما سے پوچھنا ہی نہیں چاہئے۔ صرف ڈاکٹر ہی فیصلہ کر سکتا ہے کہ مریض کے لئے کیا بہتر ہے ۔ خیر، یہ تو دو علما کا موقف تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم کسی ایسے مریض کی اذیت کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے جو درد کم کرنے والی دوا کے اثر ختم ہوتے ہی مچھلی کی طرح تڑپنے لگے، سانسیں کھنچنے لگیں، اور وہ موت کو پکارنے لگے۔ کچھ مریض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی زندگی ایک شہ رگ کٹے مرغے کی مانند ہو جاتی ہے، جو ہر لمحہ پھڑپھڑاتا ہے، مگر نہ مر پاتا ہے نہ جی پاتا ہے۔ وہ چارپائی پر ایسے قید ہوتے ہیں جیسے کسی پنجرے میں جانور، اور جو بھی ان کی عیادت کو آتا ہے، ان کے لیے دل سے آسانی کی دعا مانگتا ہے۔
مثلا ًکچھ لوگ موذی بیماریوں جیسے ٹرمینل کینسر، موٹر نیورون ڈیزیزیا ایمیوٹرافک لیٹرل اسکلروسسمیں مبتلا ہوتے ہیں، جن میں جسم آہستہ آہستہ حرکت کرنے کے قابل نہیں رہتا، مگر ذہن مکمل طور پر بیدار ہوتا ہے۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ریسپائریٹری فیلئر یا ریئر نیورولوجیکل ڈس آرڈرز جیسے حالات میں مبتلا ہو کر سانس لینے کے لیے مشین کے محتاج بن جاتے ہیں، ہر لمحہ ایک اذیت سے گزرتے ہیں۔ بعض افراد کا جسم اس حد تک گل سڑ چکا ہوتا ہے کہ نہ لیٹ سکتے ہیں نہ بیٹھ سکتے ہیں، ہر کروٹ زخم بن چکی ہوتی ہے، اور دردکش ادویات صرف وقتی مہلت دیتی ہیں، سکون نہیں۔کچھ مریض ایسی لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں جہاں بدن اندر سے سڑ رہا ہوتا ہے، ہڈیاں دکھتی ہیں، گوشت گھل رہا ہوتا ہے، نہ بیٹھ سکتے ہیں، نہ لیٹ سکتے ہیں، ہر کروٹ زخم بن چکی ہوتی ہے۔ ان پر ہر سانس بھاری ہو جاتی ہے، اور دوا کا اثر ختم ہوتے ہی اذیت ان کے رگ و پے میں ناچنے لگتی ہے۔ ایسے میں موت ان کے لیے سزا نہیں، ایک رہائی بن جاتی ہے۔
ایسے حالات میں کسی مریض کی نیت، تکلیف یا انتخاب پر فتویٰ لگانا آسان تو ہے، مگر انصاف پر مبنی نہیں۔ ۔ اس سلسلے میں بعض فقہا کی یہ تجویز ہے کہ ایسے مریضوں کو موت کی دوا دینے کی بجائے بہتر ہے کہ ان کا علاج روک دیا جائے۔مسلمانوں کے نزدیک رضامندی کی بنیاد پر موت لینا شرعاً حرام ہے، البتہ اگر علاج کا فائدہ باقی نہ رہا ہو اور مشینوں سے زندگی کو کھینچا جا رہا ہو، تو علاج ترک کیا جا سکتا ہے مگر یاد رہے یہ موت دینا نہیں، بلکہ قدرتی موت کا انتظار کرنا ہے
یہ کالم ہم سب پر چھپ چکا ہے ۔
Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام
Admin Login
LOGIN
MAIN MENU
کالمز
امیگریشن کالمز
تصاویر
رابطہ
تازہ ترین
فیڈ بیک
Mahmood Asghar Chaudhry
Crea il tuo badge
Mahmood Asghar Ch.