Mahmood Asghar

Choudhary

مراکش کا سرخ‌شہر ... اگست 2025
Download Urdu Fonts

مراکش ایک شہر نہیں، بلکہ ماضی و حال کا حسین امتزاج ہے۔ یہاں اسلامی اور یورپی ثقافتیں اس طرح ہم آہنگ ہوتی ہیں کہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ناک بھوں نہیں چڑھاتی، کہنی نہیں مارتی اور منہ نہیں چڑھاتی۔ یہ دونوں تہذیبیں بالکل ویسی ہی ملتی ہیں جیسے دو سہیلیاں جو بیچ میدان لائنیں لگا کر شٹاپو کھیلنا شروع کر دیتی ہیں اور بھول جاتی ہیں کہ ان کے درمیان مقام، حیثیت اور مرتبے کی کتنی خلیجیں حائل ہیں۔ ان دو تہذیبوں کو ایک دوسرے سے یوں بغلگیر دیکھ کر انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ صدیوں پرانی اسلامی تہذیب اور جدید مغربی طرزِ زندگی کیسے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایک ہی شہر میں رواں دواں ہیں۔
اگر آپ اس شہر میں مسجد میں داخل ہوں تو صفوں کی صفیں نمازیوں کے سجدوں سے منور ہوں گی، اور اگر کوئی کسی کیسینو یا کلب میں قدم رکھے تو اسے محسوس ہوگا کہ سارا ہجوم یہاں آ گیا ہے۔ گلیوں میں سر سے لے کر پاؤں تک باحجاب خواتین اور باریش مرد خراماں خراماں نظر آتے ہیں، اور وہیں مختصر لباس میں ہنستے بولتے جوڑے بھی کلکاریاں بھرتے ملیں گے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ کسی کو کسی سے کوئی مسئلہ نہیں، کوئی کسی کو گھورتا نہیں، تاڑتا نہیں، آوازیں نہیں کستا، اور مذاق نہیں اڑاتا۔ یہ وہ شہر ہے جہاں ہر نظریہ سانس لینے کی آزادی رکھتا ہے۔ کوئی کسی پر اپنا نظریہ تھوپتا نظر نہیں آتا، اور شاید اسی تہذیبی ہم آہنگی کی وجہ سے اردو، ہندی اور ترکی زبانوں میں پورے ملک کو "مراکش" کہا جانے لگا، حالانکہ عربی میں ملک کا نام "المغرب" ہے، انگریزی میں "ماروکو" ہے، جبکہ مراکش تو اس کا صرف ایک شہر ہے، مگر ایسا شہر جو پورے ماروکو کا چہرہ بن گیا ہے۔
مراکش ایک ایسا شہر ہے جہاں دو دنیائیں ایک ساتھ بس رہی ہیں۔ ایک جدید، کشادہ اور یورپی طرز کی سڑکوں والی دنیا، اور دوسری فصیلوں میں بند قدیم، چھوٹی چھوٹی مگر دلکش گلیوں والی دنیا جس میں گم ہو جانے کو جی چاہے۔ ایک جانب فائیو اسٹار ہوٹل، بڑی بڑی عمارتیں، اور یورپی طرز زندگی تو دوسری طرف پرانا مدینہ، جس میں داخل ہوتے ہی یوں لگتا ہے کہ گھڑی کی سوئیاں پیچھے گھوم گئی ہیں، جہاں چھوٹے چھوٹے سوق بازار، دستکار اور آوازیں لگانے والے آپ کو متوجہ کر رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دیواروں میں بند اس پرانے شہر کے باسیوں کا اس جدید شہر سے کوئی لینا دینا نہیں، انہوں نے اپنی انفرادیت، ثقافت اور تہذیب اسی طرح برقرار رکھی ہوئی ہے۔
مراکش کو "المدینہ الحمرا" یعنی "سرخ شہر" کہا جاتا ہے۔ سن 1122ء میں قائم ہونے والے اس شہر کی عمارتیں سرخ ریت اور سرخ پتھروں سے بنی ہیں۔ شہر والوں کے حسنِ ذوق کو داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے جدید عمارتوں میں بھی اسی سرخی کو برقرار رکھا ہے۔ مدینہ کے مین دروازے سے پہلے جو چوک ہے، اسے جامع الفناء کہا جاتا ہے۔ یہ ایک میدان نہیں بلکہ زندگی کا دھڑکتا ہوا دل ہے۔ یہ چوک افریقہ کا سب سے بڑا اسکوائر کہلاتا ہے۔ اس میں داخل ہوں تو لگتا ہے کہ ہر وقت ایک میلا لگا ہوا ہے۔ ٹھیلوں والے، زیتون اور مصالحے بیچنے والے، سانپوں اور بندروں کے کرتب دکھانے والے، مداری، دف والے، موسیقار، اور ہر طرف گونجتی ہوئی آوازیں آپ کی انگلی پکڑ کر آپ کو جادونگری میں لے جائیں گی۔
جامع الفناء کے چوک میں داخل ہونے سے پہلے ہی پودینہ بیچنے والوں کے لاتعداد ٹھیلے ہیں، جن کی بینی بینی خوشبو ڈھلتی شام میں آپ کو مسحور کر دیتی ہے۔ ہمارے ہاں تو پودینہ اور دھنیا ایک اضافی چیز ہے، لیکن پودینہ مراکش کی چائے کا اہم جزو ہے۔ اگر آپ نے مراکش کی پودینے والی چائے نہیں پی تو آپ ابھی تک ایک بہترین مشروب کے ذائقے سے محروم رہے ہیں۔ یورپ کے مقابلے میں مراکش بہت سستا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کو بھاؤتاؤ کرنا آنا چاہیے، کیونکہ وہاں کچھ بھی ریٹ کے مطابق نہیں ہوتا۔
مراکش کے بارے میں یورپ اور برطانیہ میں بہت منفی تاثر پائے جاتے ہیں۔ مثلاً اگر برطانیہ میں کوئی کہے کہ مراکش جا رہا ہے تو سننے والوں کی آنکھوں میں شرارت جھلکنے لگتی ہے، جیسے یہ کوئی عیاشی کا اڈہ ہو۔ دوسری جانب یورپ میں نسل پرست "ماروکی" کا لفظ بطور گالی یا طعنہ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جب آپ مراکش پہنچتے ہیں تو یہ منفی تاثر زائل ہو جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ بڑی محبت سے پیش آتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیں کہ صرف ایک مراکش شہر ہر سال بیس لاکھ سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس میں قانونی تحفظ کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کا چہرے پر مسکراہٹ سجانے والا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔
مراکش کو ایک اور وجہ سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اور وہ ہے اس کا حمام کلچر۔ مراکش میں حمام ایک عوامی غسل خانہ ہوتا ہے جس میں لوگ جسمانی صفائی، سکون اور روحانی تطہیر کے لیے جاتے ہیں۔ یہ کلچر اسلامی دنیا کی صدیوں پرانی روایت ہے جو ترکی، ایران، شام، مصر اور مراکش میں آج بھی زندہ ہے۔ اور یہ خواتین و مردوں کے لیے الگ الگ ہوتے ہیں۔ ان حماموں میں غسل، مالش اور قدرتی مصنوعات سے مساج یا اسکرب کے ذریعے جسم کی میل نکالی جاتی ہے۔ یہ مراکشی ثقافت کا اہم حصہ ہے اور سیاح اسے مقامی روایات کا تجربہ سمجھ کر آزمانا چاہتے ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ بعض ممالک میں جو مالش اور مساج گندے ہاتھوں والے چوکوں اور چوراہوں میں سر انجام دیتے نظر آتے ہیں، اسے مراکش والوں نے ایک ترتیب کے ساتھ خوشبودار مراکز تک محدود رکھا ہوا ہے۔
مجھے جو بات ذاتی طور پر مراکش کی سب سے بہترین لگی وہ اس کا فیملی کلچر ہے۔ شام ڈھلتے ہی پورے شہر کی فیملیاں گھروں سے باہر نکل آتی ہیں، اور سڑکوں کے بیچ، فٹ پاتھوں پر، یا پارکوں میں جہاں بھی انہیں سبزہ نظر آتا ہے، چادر بچھا کر بیٹھ جاتی ہیں۔ چائے کی کیتلیاں ساتھ لے آتی ہیں اور اس کی چسکیوں میں اپنے دوستوں اور محبت کرنے والوں کے ساتھ گپ شپ میں زندگی کا مزہ لیتی ہیں۔ یہ وہ منظر ہے جو آپ کو یورپ میں بھی نظر نہیں آتا۔ شاید اس کلچر کی وجہ مراکش کی وہ جادوئی راتیں ہیں جو گرم دنوں کے بعد ٹھنڈی ہواؤں کی شکل میں روح میں اترتی ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر یہی کلچر پاکستان میں بھی عام کر دیا جائے تو یقین مانیں کہ گھٹن، ڈپریشن، انتہا پسندی اور ہزاروں بیماریوں سے ہمارے معاشرے کو نجات مل جائے گی۔



Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN