Mahmood Asghar
Choudhary
Home
Columns
Immigration Columns
Pictures
Contacts
Feedback
عید میلاد اور یورپ میں اسلامائزیشن کا خطرہ .. یکم ستمبر 2025
Download Urdu Fonts
اٹلی کے شہر بلونیا میں نکلنے والا عید میلاد النبی کے جلوس کو مقامی آبادی کی جانب سے خوب تنقید کا نشانہ بنایاجا رہا ہے ۔ نارتھ لیگ کی لیڈرسیلویا ساردونے سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیو جاری کی ہے اور ساتھ لکھا ہے کہ یہ ایک اسلامی مظاہرہ تھا، جس میں خواتین شامل نہیں تھیں ، مساجد کی اپنی نجی سیکورٹی تھی اور یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہمار ے ملک میں اسلامائزیشن کے آثار تیزی سے نمایاں ہو رہے ہیں ۔۔۔بس پھر کیا تھا، نیچے ہزاروں کمنٹس کی بارش ہونے لگی۔ میئر اور مقامی انتظامیہ کو کھلے عام کوسا گیا کہ یہ سب کچھ ان کی اجازت سے ہوا۔ لوگوں نے اسے مذہبی تہوار کے بجائے خطرے کی گھنٹی قرار دیا۔
اگر ان چار نکات کو بغور دیکھا جائے تو بات صاف ہو جاتی ہے کہ یورپ میں عید میلاد کی تقریبات کا اہتمام کرنے والے مقامی مزاج کو ابھی تک نہیں سمجھ پائے۔ اور اگر عوامی احتجاج شدت پکڑ گیا تو مستقبل میں ایسے جلوس ناممکن نہ سہی، لیکن بے حد مشکل ضرور ہو جائیں گے۔
1۔ لکھا ہے یہ ایک مظاہرہ تھا
2۔ نشاندہی کی گئی ہے کہ عورتیں اتنی بے حیثیت ہیں کہ انہیں شامل ہی نہیں کیا گیا
3۔ سوال اٹھایا گیا ہے کہ مساجد کی نجی سیکورٹی تھی
4۔ اسلامائزیشن کے خدشے کا اظہار کیا گیا ۔
لفظ مظاہرہ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب لوگوں کو لگے کہ جلوس کے شرکاء اتنہائی غصے میں ہیں ۔ بہت اہم نکتہ ہےاصل میں ہم لوگ جب کوئی دینی جلوس نکالتے ہیں تو مقامی زبان استعمال کرنے کی بجائے پرجوش نعرے لگاتے ہوئے ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جیسے ہم محبت کا اظہار کرنے نہیں آئے بلکہ کوئی احتجاج کرنے آئے ہیں چونکہ مقامی آبادی کو ہمارے نعروں کی سمجھ تو آتی نہیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں اس لئے وہ اس کو مظاہرہ سمجھتے ہیں ۔
خواتین کو ہم بازار میں لے جاتے ہیں ۔ مقامی میلوں ٹھیلوں میں تو گھمانے لے جاتے ہیں لیکن مسجد میں نماز جمعہ ہویا عیدین ، کوئی تبلیغی جلسہ ہو یا کوئی دینی سرگرمی ،عورتوں کو شمولیت معیوب سمجھتے ہیں ۔
اپنے تہواروں میں یا تقریبات میں اپنے غیر مسلم دوستوں یا پڑوسیوں جن تک امن کا پیغام پہنچانا ہمارا سب سے پہلا دینی فریضہ ہے انہیں ہی اپنی سرگرمیوں میں دعوت نہیں دیتے تو ظاہر ہے انٹی گریشن کیسے ہوگی اور لوگ تو خطرہ ہی سمجھیں گے ۔
اٹلی کے شہر کوریجو میں مجھے آج سے سترہ سال پہلے اس صوبے کی تاریخ کا سب سے پہلا جلوس عید میلاد النبی کا اہتمام کرنے کا موقع ملا تھا اور اللہ تعالی کی دی ہوئی حکمت سے مجھے ان چاروں باتوں کا پہلے سے علم تھا کہ یہ ممکنہ اعتراضات ہوسکتے ہیں اورمیں نے ان کا خاص خیال رکھا تھا ۔ کیسے ؟
۔ لفظ مظاہرے کا تاثر ختم کرنے کے لئے میں نے اس تقریب کے اشتہارات اطالوی زبان میں چھپوائے اور ان پر لکھا ۔۔نتالے اسلامیکو ۔۔ نتالے کا لفظ اطالوی شہری اپنے پیغمبر کی پیدائش کے لئے یعنی کرسمس کے لئے استعمال کرتے ہیں اور یہ لفظ سن کر ہی ان کے دل کے اندر ، جشن ، خوشی ، اور تہوار کے جذبات پیدا کر دیتا ہے ۔ میں نے ان سے ان کا لفظ ہی چھین لیا ۔۔ جلوس کے لئے میں نے دوبارہ انہی کا لفظ چھینا ۔۔ کامیناتا دی پاچے ۔۔ امن والک ۔امن اور والک دونوں الفاظ سے اطالوی شہریوں کو جنون ہے اور اسے وہ اپنی ہی ثقافت کا حصہ سمجھتے ہیں ۔
2۔ عید میلاد النبی کی تقریب میں عورتوں اور بچوں کی شمولیت لازمی قرار دی ۔ جس میں اطالوی عورتیں بھی شامل تھیں۔ ایک کوئز پروگرام جو اطالوی میں تھا اس میں سب کو حصہ لینے کا موقع دیا گیا ۔ تقریب شروع ہونے سے پہلے پیغمبر اسلام ﷺ کی حیات طیبہ سے متعلق معلوما ت اطالوی زبان میں چھپوا کر سب شرکائ کو دی گئی جس کی وجہ سے کوئز پوگرام پر بہت سے انعامات اطالوی خواتین بھی جیتنے میں کامیاب ہو گئیں
3۔ جلوس میں مقامی پادری ، نیشنل اسمبلی کاممبر ، سینٹ کا ممبر، مقامی مئیر ،ٹریڈ یونین کے نمائندگان ، محکمہ صحت کی سربراہ اور محکمہ تعلیم کی سربراہان کو شامل کیا گیا ۔ جو سب اطالوی شہری تھے ۔ جس سے یہ میلاد کی تقریب او ر جلوس ایک گروہ کی علیحدہ سے تقریب نہیں تھی بلکہ اس شہر کی مشترکہ تقریب تھی ۔ جس میں عورتوں اور بچوں کی شرکت لازمی تھی ۔ اس کے ساتھ پاکستانی قونصل جنرل اور ویلفئیر اتاشی بھی شامل ہوئے
جلوس شہر میں پہنچا تو صرف انہی لوگوں اور طلباء کو مائیک دیا گیا جو اٹالین زبان پر دسترس رکھتے تھے تاکہ مقامی آبادی کو سمجھ آسکے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں ۔ جلوس کا انتظام نجی سکیورٹی کی بجائے مقامی پولیس کے حوالے انتظام کیا گیا تاکہ یہ ایک مقامی تقریب کا تاثر دے
شہر کے مرکزی سکوائر میں پہنچے تو برآمدوں میں اور ارد گرد مقامی شہریوں کی کثیر تعداد کھڑی تھی ۔میں نے مائیک خود لیا اور اطالوی شہریوں کی زبان میں انہیں سمجھایا کہ یہ خوشیوں کا تہوار ہے اور ہم بھی اپنی خوشیاں اسی طرح مناتے ہیں جیسے دنیا مناتی ہے ۔ ۔ امن والک کرتی ہے ۔ گلیوں اور کوچوں میں آتی ہے ۔ اس کے بعد پادری ، اور نیشنل اسمبلی اور سینیٹرز کی تقریر کروائی گئی ۔ لوگ اتنے خوش تھے کہ خوشی سے ہمارے ساتھ شامل ہوگئے
۔ اسلامائزیشن کا ڈر ختم کرنے کے لئے میں نے اپنی ایسوسی ایشن پاکستان کے تمام ممبران کے لئے لازم قرار دیا کہ اس دن وہ بہترین پینٹ کوٹ پہن کر آئیں کہ جس ملک میں رہتے ہیں اگر ان کی ثقافت کو احترا م نہیں دینا تو و ہ ہماری بات کیا سنیں گے ۔
تھری پیس سوٹ والا آئیڈیا مجھے ایک مراکش کے بہت بڑے مبلغ اور اسکالر نے دیا تھا ۔ اس نے کہا تھا بیٹا یاد رکھنا جب تم تقریر کرنے انہی کے لباس میں جاؤ گے تو وہ تمہیں اپنا سمجھیں گے۔ اس کے بعد تم آیتیں سناؤ گے تو یہ لوگ غور سے سنیں گے ۔ اور اگر تم اپنا حلیہ ہی ان جیسا نہیں بناتے تو یہ تمہاری بات کیوں سنیں گے؟
اگر ہم یورپی ممالک میں عید میلاد یا دیگر تقریبات کو منانا چاہتے ہیں تو ہمیں مقامی مزاج کو سمجھنا ہوگا ۔ ان سے الگ دنیا بنانے کی کوشش کریں گے تو وہ ایسا کبھی ہونے نہیں دیں گے ۔داعی اور مبلغ کا سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ وہ خوف کا خاتمہ کرے ۔ فاصلے کم کرے اور لوگوں کو اپنے قریب لائے
Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام
Admin Login
LOGIN
MAIN MENU
کالمز
امیگریشن کالمز
تصاویر
رابطہ
تازہ ترین
فیڈ بیک
Mahmood Asghar Chaudhry
Crea il tuo badge
Mahmood Asghar Ch.