Mahmood Asghar
Choudhary
Home
Columns
Immigration Columns
Pictures
Contacts
Feedback
امی جان کی کمیونیکیشن ... ستمبر 2025
Download Urdu Fonts
ممتاز مفتی نے لکھا تھا کہ غیبت یا گوسپ دوستیاں مضبوط کرنے اور تعلقات بہتر بنانے میں اہم ثابت ہو تی ہے اس کا عملی نمونہ میں نے نیویار ک میں دیکھا میں امی جان سے ملنے نیویارک گیا تو وہاں ماں جی کی خدمت کیلئے ہرروز ایک ادھیڑ عمر بنگالی ملازمہ آتی تھی ۔ جو گھر کی صاف ستھرائی کے علاوہ امی جی کی خدمت کرتی ہے ۔ میں پہلے دن امی کی پاس بیٹھا تھا وہ آئی تو امی جی نے اسے ہاتھ کے اشارے سے فریج سے دو انڈے اور دودھ لینے کاکہا اور اسے کہا کہ ناشتہ کر لو ۔ اس نے دودھ کا گلاس بھرا اور انڈے ابال کر ناشتہ شروع کر دیا ۔ میں نے حیرت سے امی جی سے پوچھا کہ امی جی یہ کوئی پنڈ نہیں ہے جہاں آپ پہلے ملازم کو ناشتہ کروانا شروع ہوگئی ہیں ۔ امی کہنے لگی بیٹا اس کی بہو بڑی ظالم ہے اسے کھانے پینے کو کچھ نہیں دیتی ۔ یہ یہاں آتی ہے تو میں اسے انڈے اور دودھ دیتی ہوں کہ اس کا ناشتہ تو اچھا ہو جائے ۔ بعد میں وہ خاتون کام کاج کے ختم کرکے آئی اور امی جی کے پاؤں دبانا شروع ہوگئی ۔ پھر وہ دونوں آپس میں باتیں کرنا شروع ہوگئی ۔ میں نے نوٹ کیا کہ اس بنگالن کو ایک لفظ اردو یا انگریزی کا نہیں اآتا تھا اور امی کو ایک لفظ بنگالی زبان کا نہیں آتا تھا ۔ امی جی مجھے بتاتی جارہی تھی کہ اس کی بہو بہت ظلم کرتی ہے اور وہ بھی ٹسوے بہاتے ہاں ہاں ملاتی جارہی تھی ۔ میرے سامنے دنیا کا ایک عجیب وغریب کمونیکشن سسٹم چل رہا تھا ۔ جس میں دونوں فریقین اپنی اپنی زبان میں دل کی بھڑاس نکال رہے تھے ۔ میں حیران تھا کہ یہ دونوں خواتین ایک دوسرے سے دکھ سکھ کیسے کر رہی ہیں ۔ ۔ اور دونوں کو یہ کیسے پتہ ہے کہ گوسپ کا موضوع ''بہو '' ہے اوردونوں کو گفتگو میں اتفاق رائے کیسے ہے کہ واقعی دنیا کی ہر بہو ظالم ہوتی ہے ۔ یہ سب کیا تھا ؟ اسے کہتے ہیں پرسپشن یا تاثر ۔۔ ایک ایسا تاثر جس میں ہر بہو کے لئے اس کی ساس ولن اور ہر ساس کے لئے اس کی بہو ولن ہوتی ہے اور اس بات پر تمام خواتین کے کنسیس یعنی اتفاق رائے موجود ہوتی ہے اس اتفاق رائے کو کسی کمیونیکیشن سسٹم کی ضرورت نہیں ہے ۔۔ تاثر کو تبدیل کرنا تقریباً نا ممکن ہے ۔ مراکشی لوگوں کے بارے لکھے گئے میرے حالیہ کالموں پر بہت سے لوگوں نے اختلاف کیا ہے ؟ آپ سب کا اختلاف سر آنکھوں پر ۔ لیکن مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیئے کہ ہماری رائے اکثر مجموعی تاثر کی اسیر ہوتی ہے ہمارے ذہن میں ایک قوم یا ایک فرد کے بارے ایک منفی تاثر جب ایک دفعہ ذہن میں بیٹھ جاتا ہے تو اس تاثر سے لڑنا بہت مشکل ہوتا ۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ یورپ میں موروکی کی اصطلاح یا گالی تو بہت دیر بعد آئی ہے لیکن برطانیہ میں'' پاکی '' کی گالی بہت پہلے ایجاد ہوئی تھی ۔ حالانکہ پاکستانی برطانیہ میں ڈاکٹرز، وکیل، جج ، اکاؤنٹنٹ ، سیاستدان اور بطور ورکر اس معاشر ے کو بہترین خدمات بھی فراہم کر رہے ہیں ۔ دنیا کا ہر انسان یا ہر معاشرہ نیکی اور بدی ، خیر اور شر کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ دنیا میں کوئی بھی قوم شخص یا لوگ سراسر خیر یا پھر سراسر شر نہیں ہوتے ۔۔ اس لئے انسانوں سے پیار کرنا سیکھیں بالکل اسی بنگالن کی طرح جس نے امی جی کے پاؤں دباتے ہوئے مجھے ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ آمی آپنار ما-جیکے بھالو باشی ۔۔۔ یعنی میں آپ کی والدہ سے بہت پیار کرتی ہوں ۔ میں نے بھی ہاتھ کے اشارے سے اسے تھینک یو کہا ۔۔ ۔ وہ جانے لگی تو ماں جی بولی پترگھر کے ملازموں کو پیسے دیتے ہیں ۔ یورپ رہ رہے ہو تو کیا گاؤں کی روایات بھول گئے ہو؟
Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام
Admin Login
LOGIN
MAIN MENU
کالمز
امیگریشن کالمز
تصاویر
رابطہ
تازہ ترین
فیڈ بیک
Mahmood Asghar Chaudhry
Crea il tuo badge
Mahmood Asghar Ch.