Mahmood Asghar
Choudhary
Home
Columns
Immigration Columns
Pictures
Contacts
Feedback
شناختی کارڈ اور پانڈھا .. 38واںحصہ .. ستمبر 2025
Download Urdu Fonts
۔ شناختی کارڈ اور پانڈھا ۔38 واں حصہ
ان دنوں اٹلی کے شناختی کارڈ پر ایک خانہ لازمی ہوتا تھا ۔ پروفیشن یعنی پیشہ ۔ تقریباً 99 فیصد تارکین وطن شہریوں کےشناختی کارڈ پر لکھا ہوتا تھا ۔ اوپیراؤکمونے ۔ مینول لیبر۔ یعنی ایک عام قسم کا مزدورجس کے پاس کوئی فنی مہارت بھی نہ ہو۔ مجھے اس لفظ سے چڑ تھی ۔ یہ ظاہر کرتا تھا کہ اطالوی حکومت تمام امیگرنٹس کے متعلق کیا سوچتی ہے ۔ یہ ایک ایسا ٹھپہ تھا جو ماتھے پر کلنک کی صور ت میں موجود تھا۔ ہماری شناخت کےخانے میں لکھ دیا جاتا تھا ۔ مزدور ہونے میں کوئی خرابی نہیں لیکن کسی کو بے ہنر مزدور کا خطاب دینا یہ بھی ریس ازم کی بدترین صورت حال تھی ۔
میں نے اطالوی زبان سیکھنے کے لیے اسکول جانا شروع کیا تو کچھ بزرگوں نے مشورہ دیا کہ تم اپنا وقت ضائع کر رہے ہو۔ یہ انگلینڈ، امریکہ یا کینیڈا نہیں ہے، یہاں پڑھائی کا کوئی فائدہ نہیں۔ کچھ لوگوں نے مجھے پاگل کہا اور کچھ نے طنزیہ انداز میں کہا: "اگر تم یہ سوچ کر پڑھ رہے ہو کہ تمہیں یہاں کوئی وائٹ کالر جاب مل جائے گی تو ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ اس ملک میں امیگرنٹس کو کوئی گھومنے والی کرسی پر نہیں بیٹھنے دیتا۔ اس ملک میں ہمارے شناختی کارڈ پر پیشے کے خانے میں جو ’مزدور‘ لکھا ہوا ہے، اسے کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ تم بھی نہیں کر سکو گے۔ عقل کے ناخن لو، ہم یہاں پیسہ کمانے آئے ہیں۔ پڑھائی پر وقت ضائع کرنے کے بجائے اوور ٹائم لگاؤ اور زیادہ کماؤ۔ تاکہ جس مقصد کے لئے ملک چھوڑا ہے وہ پورا ہو ۔ ہم یہاں کچھ ثابت کرنے نہیں آئے ۔
اٹلی میں تنخواہ کو "بوستا پاگا" کہا جاتا ہے۔ ان دنوں غیر ملکیوں کے درمیان یہی گفتگو ہوا کرتی تھی: "تمہارا بوستا کتنا نکلتا ہے؟" اور دوسرا سوال یہ ہوتا تھا: "تمہیں اوور ٹائم بوستے کے اندر ملتا ہے یا باہر؟" اس کا مطلب یہ تھا کہ بعض فیکٹریاں اوور ٹائم کا پیسہ بلیک میں نقد دیتی تھیں، جس سے مالک کا بھی ٹیکس بچتا اور ورکر کو بھی فائدہ ہوتا۔ میری فیکٹری میں اوور ٹائم پر کوئی پابندی نہیں تھی، لیکن میں شام کو اوور ٹائم کرنے کے بجائے زبان کے اسکول جانا زیادہ ضروری سمجھتا تھا۔ صلاح کاروں کی باتیں حوصلہ شکن ضرور تھیں مگر حقیقت پر مبنی تھیں، کیونکہ یورپی معاشرے میں پہلی جنریشن کو دفتر کی جاب ملنا تقریباً ناممکن تھا۔ ان ممالک میں مزدوروں کی سطح کی زبان سیکھنے میں ہی کئی مہینے لگ جاتے، چہ جائیکہ کسی کو دفتر کی نوکری ملے۔ لیکن میں نے بابا جی اشفاق احمد کے ایک ڈرامے سے ایک ہی بات سیکھی تھی کہ پتر اگر بھیک مانگنے بھی نکلو تو پانڈھا(کاسہ) لیکر نکلنا ۔ اگر پانڈھا ہی نہ ہوا تو ڈالنے والا خیر کسی میں ڈالے گا ۔اور میں نے سوچ لیا تھا کہ اطالوی زبان اور تعلیم کا پانڈھا میں ضرورتیار کر لوں گے تاکہ جب آسمان پر بیٹھا داتا بھیک دینے لگے تو وہ میرے ہاتھوں سے گر نہ جائے
جس اطالوی ایسوسی ایشن کامیں نائب صدر بنا تھا ۔ ان کی ایک میٹنگ میں پوچھا گیا کہ اس وقت امیگرنٹس کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟اس پر کوئی پروگرام کیا جائے ۔ ان دنوں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ریزیڈنٹ پرمٹ کی تجدید کے لیے جب ہمیں پولیس اسٹیشن جانا پڑتا تو اپائنٹمنٹ لینے کے لیے سردیوں کی ٹھٹھرتی راتوں میں ایک رات پہلے لائن لگانی پڑتی، تاکہ اگلے دن جب دفتر کھلے تو ہمیں نمبر ملے،ہمیں دس دس گھنٹے لائین میں کھڑا ہونا پڑتا تب جاکر ٹوکن ملتا ۔ ورنہ پھر اگلے دن کا انتظار۔ مجھے یہ سب کچھ انتہائی غیر انسانی لگتا تھا۔
میں نے اپنی صدر آدریانہ سے کہا کہ صوبے کے پولیس چیف کے اعزاز میں ایک پروگرام رکھا جائے اور اس کے سامنے یہ مسئلہ رکھا جائے۔ میری تجویز مان لی گئی، لیکن آدریانہ بولیکہ اس ایشو کو بھرپور طریقے سے اٹھانے کے لئے ہمیں علاقائی مئیرز کے ساتھ ٹریڈ یونینز کے امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہوں کو بھی دعوت دینا ہوگی تاکہ پروگرام کی اہمیت بڑھ جائے پروگرام کا اشتہار چھپ گیا ۔ تمام مہمان مقررہ دن پہنچ گئے ۔ پولیس چیف نے امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کی ہیڈلیگا بوئے کو بھیجا جو کہ ایک خاتون تھی ۔ اس کے چہرے پر پولیس والو ں جیسی سنجیدگی، گفتگو میں وہ ترش رویہ اور کرختگی نمایاں تھی۔ پولیس کی وردی میں اکڑ ہی ایسی ہے جب کوئی آفیسر اپنے سپاہیوں کے ساتھ ہال میں داخل ہوتا ہے اس وقت وہ بھی خود کو چھوٹا موٹا کنگ سمجھ رہا ہوتا ہے ۔ سٹیج پر اس کی کرسی تھی اور شہر کے مئیر کی کرسی تھی اور ساتھ میں دو اور کرسیاں تھی جو اٹلی کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین سی جی آئی ایل اور چزل کے امیگریشن آفس کے نمائندوں کی تھی ۔ میں نے جب انہیں دیکھا تو حیران رہ گیا وہ دونوں افریقی سیاہ فام شہری تھے ۔ ایک کا نام تھا جوزف والکر جو گھانا سے تھا اوردوسرے کانام تھا ابو جو سیینگال سے تھا
جب میں نے دو سیاہ فام افراد کو پولیس ہیڈ کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھے دیکھا تو میرے ذہن میں چار سو چالیس وولٹ کا بلب روشن ہوگیا ۔ اٹلی میں موجود میرے ہم وطنوں کی کہی ہوئی ساری باتیں غلط تھیں کہ ہم لوگ کبھی گھومنے والی کرسی پر نہیں بیٹھ سکتے، یہ بھی غلط ہے کہ ہمیں وائٹ کالر جاب نہیں مل سکتی، اور یہ بھی غلط ہے کہ ہمارے کارڈ پر ہمیشہ "مزدور" لکھا رہے گا۔ دو سیاہ فام شہریوں کو ایک پولیس ہیڈ اور ایک مئیر کے ساتھ بیٹھے دیکھ کر میں نے سوچا اگر یہ یہاں پہنچ سکتے ہیں توہم پاکستانی کیوں نہیں پہنچ سکتے ۔ اس دن میرے دل میں امید جاگی۔ ارادوں نے خواب سجائے، سوچ نے عزم باندھا۔ میں نے خدا سے دعا کی اور نیت کر لی کہ ایک دن میں بھی اتنی محنت کروں گا کہ میں بھی اس لیگا بوئے کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھوں گا۔اور اگر یہ سب بھی نہ کر سکا تو اتنا ضرور کروں گا کہ اپنے اس شناختی کارڈ میں لکھے پروفیشن کے خانے میں درج لفظ ۔عام مزدور ۔ کو مٹوا دوں گا ۔کیونکہ کسی لکھاری نے لکھا ہے کہ مقصد بڑا رکھوں اگر اس کو پالیا تو اچھی بات ہے اگر نہ بھی پا سکے تو تمہاری زندگی کو ضرور عظیم بنا دے گا
کبھی کبھی خدا اتنے قریب ہو کر سنتا ہے کہ انسان خود حیران رہ جاتا ہے۔ اس دن میں ہال کی سب سے پچھلی قطار میں بیٹھا تھا اور یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مستقبل میں خدا ایسا بندوبست کرے گا کہ مجھے ایک ایسا اسٹیج ملے گا جہاں میں اطالوی وزیر کے ساتھ بیٹھوں گا، اور یہی لیگا بوئے میرے ساتھ نہیں بلکہ اسٹیج کے نیچے، میرے سامنے بیٹھی ہوگی۔ اور میں اسی جوزف والکر کا دفتر سنبھال رہا ہوں گا۔لیکن ایک قطرے کو سمندر بننے کے لیے ایک عمر چاہیے۔ اس کرسی پر بیٹھنے اور اٹلی میں ٹریڈ یونین کے اتنے بڑے عہدے پر پہلا پاکستانی بننے کے لیے مجھے بہت محنت کرنا تھی۔
خیر اجلاس شروع ہوا تو پولیس ہیڈ کاکہنا تھا کہ تارکین وطن کی اتنی زیادہ تعداد ہمارے پرونس میں آگئی ہے کہ ہم اس لائین کے مسئلے کا کوئی حل نہیں نکال سکتے کیونکہ ہمارے پاس عملہ کم ہے ۔ حال میں بیٹھے کسی سائل نے کہا کہ ہمارے ساتھ مودنہ پرونس ہے وہاں تو کسی کو لائین کا مسئلہ نہیں ہے ۔ یہاں اس پولیس آفیسر نے اپنی اکڑ میں وہی جملہ کہا جوہر آفیسر غصے میں کہہ کر بعد میں پچھتاتا ہے ۔ وہ کہنے لگی کہ جسے ساتھ والا پرونس زیادہ پسند ہے وہ وہیں کیوں نہیں چلا جاتا ۔ اس کا اتنا کہنا تھا کہ کسی نے ہال میں طنزیہ طور پر''براوا '' یعنی شاباش کہا اور پھر طنزیہ تالیاں بجوا دیں ۔ محترمہ غصے میں لال پیلی ہوگئی ، اور کانفرنس چھوڑ کر پاؤں پٹختی چلی گئی ۔ میں چونکہ ایک ایسے ملک سے آیا تھا جہاں پولیس والوں کی توہین نہیں کی جاتی ۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ طنزیہ تالیاں تو لوگوں نے بجوائی ہیں لیکن اس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑے گا ۔اور پھر وہی ہوا اگلے ہفتے پولیس چیف کا فون آدریانہ کو آگیا تھا کہ آپ نے میری آفیسر کو ناراض کر دیا ہے ۔پولیس چیف نے ہم سے خصوصی میٹنگ کے لئے ہمیں اپنے دفتر بلایا تھا ۔ ۔۔ ایک عام مزدور ایک صوبے کے ''ایل کستورے'' یعنی پولیس چیف سے ملنے اس کے آفس جا رہا تھا ۔ایک ویلڈر آمنے سامنے بیٹھنے کے لئے برابری کی سطح کا کانفیڈینس کہاں سے لائے گا یہ قصہ پھر کبھی ۔۔۔
آج کی بات یاد رکھیں: خواب دیکھا کریں۔ کھلی آنکھوں سے دیکھے جانے والے خواب ضرور پورے ہوتے ہیں۔لیکن شرط وہی ہے کہ خواب دیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنا پانڈھا تیار کرتے رہیں ۔۔۔
میں اٹلی کی تاریخ میں اس ٹریڈ یونین کا پہلا پاکستانی تھا جو پرونشل لیول کے امیگریشن آفس کا ڈائریکٹر بنا ۔ اور یہ کردار جو ان قصوں میں آئے ہیں جن سے بات کرنے کے لئے بھی میری زبان لڑکھڑا تی تھی ۔ بعد میں ایک کی تو میں کرسی پر مستقل براجمان ہوگیا اور دوسرے بونے لگنا شروع ہوگئے ۔ یہ قصہ ہے اس کانفرنس کی سب سے آخری لائین پر بیٹھے ایک 21سالہ نوجوان کا جسے ابھی تک اطالوی زبان کےجملے بنانے بھی نہیں آتے تھے ۔ کیا میں اپنی شناختی کارڈ پر لکھا لفظ مزدور مٹوانے میں کامیاب ہوا یا نہیں یہ کہانی پھر سہی ۔۔۔۔
Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام
Admin Login
LOGIN
MAIN MENU
کالمز
امیگریشن کالمز
تصاویر
رابطہ
تازہ ترین
فیڈ بیک
Mahmood Asghar Chaudhry
Crea il tuo badge
Mahmood Asghar Ch.