Mahmood Asghar

Choudhary

انقلابی یوٹیوبر ... 11 ستمبر 2025
Download Urdu Fonts
دنیا کے کسی بھی ملک میں انتشار ، خلفشار یا دنگا فساد شروع ہو ۔ پاکستان سے باہر بیٹھے کچھ یو ٹیوبروں کے دل میں یہ امنگ پیدا ہوجاتی ہے کہ پاکستان میں اس طرح کی دھینگا مشتی کیوں شروع نہیں ہورہی ۔ وہاں پر گلیوں اور سڑکوں پر آگ وخون کا کھیل کیوں شروع نہیں ہوتا وہاں پر گولیوں اور نعروں کی آوازیں کیوں نہیں سنائی دیتی ۔ وہاں پر دھرنوں ، احتجاجوں اور مظاہروں کا منظر کیوں نہ بپا ہوتا ۔ اپنی اس خواہش کو وہ انقلاب کا نام دیتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے سارے مسائل کا حل انقلاب میں پوشیدہ ہے وہاں اگر عوامی بغاوت ہو جائے ۔ کچھ سیاستدانوں کے گھر جلا دئیے جائیں انہیں چوک پر لٹکا دیا جائے یا کم از کم ان کے لباس تار تار کر لئے جائیں تو اس کے بعدملک معاشی ، دفاعی اور سیاسی طور پر مستحکم ہوجائے گا ۔ پاکستان کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے اور راوی چین ہی چین لکھنا شروع ہوجائے گا ۔ لیکن اپنی اس خواہش کو تکمیل دینے کے لئے وہ خود پاکستان نہیں جانا چاہتے بس یہی چاہتے کہ پاکستانی نوجوان اس خاک وخون کا اہتمام کریں تاکہ ذرا گلشن کو خاکستر کرنے کا کاروبار چلے ۔ اس لئے وہ خلفشار کا شکار ممالک کی تصاویر شئیر کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ پاکستان میں یہ کب ہوگا؟ پھر اپنی یوٹیوب میں تھم نیل کے ذریعے امید دلاتے ہیں ان کی ہر یوٹیوب ویڈیو کا ٹائٹل ہوتا ہے خوف کے بت ٹوٹ گئے ،اگلے ہفتے سے خوشخبریاں ملیں گی اس وقت عالمی حالات کی سنگینی کا جس کو ذرا سا بھی اندازہ ہے وہ کبھی یہ خواہش نہیں کرے گا کہ پاکستان کسی بھی لحاظ سے غیر مستحکم ہو ۔ حالیہ ایران ، یوکرین ، قطر اور مشرق وسطی میں بننے والے حالات کے بعد کسی کو ایک فیصد بھی شک نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان کے خلاف مئی میں جو فالس فلیگ آپریشن کے تحت جنگ مسلط کی گئی وہ ایک بڑے پلان کی حصہ تھی جس سے پاکستان کو اللہ تعالی نے فی الحال تو نکال دیا ہے لیکن دشمنوں کی نظروں میں پاکستان کا کھٹکنا ابھی ختم نہیں ہوا ۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کو مزید غیر مستحکم کرنے والا اور اس کے تنازعات کا سیاسی حل نکالنے کی بجائے کسی عوامی بغاوت کا خواب دیکھنے والا احمقو ں کی جنت میں رہنے والا ہے ۔ ویسے بھی پاکستان جیسے ملک میں کسی سیاسی حکومت یا سیاسی جماعت کے خلاف انقلاب لانے کے خواہش ایسی ہے جیسے آپ بس میں بیٹھے ہو اور خطرناک ڈرائیونگ سے تنگ آکر کنڈکٹر سے لڑ پڑیں ۔ بھلا کنڈکٹر کااس میں کیا قصور ؟ رواں سال میں ہونے والی انڈیا پاکستان کشیدگی ، ملک میں جاری دہشتگردی اور پاکستان کی تاریخ کے سب سے تباہ کن سیلاب کے بعد پاکستان کی حالت اس وقت اس مریض کی سی ہے جو آپریشن تھئیٹر میں بیڈ پر لیٹا ہو ، اسکی ملٹی پل انجریز کی سرجری شروع ہواور ایسے میں مریض کے لواحقین ہسپتال کے عملے کے خلاف احتجاج شروع کر دیں ۔۔ ویسے انقلاب سے یاد آیا پاکستان میں جس نےبھی اس لفظ کا استعمال کیا یہ لفظ ا سکے سیاسی کیرئیر کی موت ثابت ہوا ۔اور جن جماعتوں نے سیاسی جدوجہد جاری رکھی وہ گرتے پڑتے پھر بھی اپنی سیاسی جماعت کا نام زندہ دکھنے میں کامیاب رہے



Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN