Mahmood Asghar

Choudhary

اوورسیز پاکستانیوں‌کو وزیر اعظم کا سلیوٹ‌... 22 ستمبر 2025
Download Urdu Fonts
وزیر اعظم پاکستان کا سمندر پارمقیم پاکستانیوں کو ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سلیوٹ
مورخہ 20 ستمبر 2025ء کو لندن میں وہ لمحہ ایک تاریخ بن گیا جب وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے اپنے خطاب میں اوورسیز پاکستانیوں کو ایک عجیب وغریب طریقے سے خراج تحسین پیش کیا ۔ خطاب کے دوران جب وہ انکشاف کر رہے تھے کہ اس سال اوورسیز پاکستانیوں نےاپنے وطن کو 38ارب ڈالر کا زرمبادلہ بھیجا ہے تو ان کی کیفیت جذباتی ہوگئی انہوں نے مائیک اور ڈائس چھوڑ دیا اور اسٹیج پر حاضرین کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا ہاتھ ماتھے پر لے جا کر بولے: "تو پھر میں کیوں نہ آپ سب کو سلیوٹ پیش کروں؟''
کسی بھی پاکستانی وزیر اعظم کی جانب سے اتنے جذباتی انداز میں اوورسیز پاکستانیوں کے وطن کے جذبے کو اس طرح سلام پیش کرنا قابل تحسین ہے ۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اب ملک کے حکمرانوں کی نظر میں اوورسیز پاکستانیوں کی اہمیت بڑھ رہی ہے یہ اس بات کی نشانی ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو بھی اب دیگر پاکستانیوں کے برابر کا شہری سمجھا جانے کی جانب مکالمے کا آغاز ہوچکا ہے ۔اس بات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم نے اوورسیز پاکستانیوں سے اپنے جذبات کے اظہار کیلئے شعر و ادب کا سہارا بھی لیا ۔ اپنے خطاب میں پردیس کا دکھ بیان کرتے ہوئے عطا الحق قاسمی کا شعر بھی سنایا کہ وہ ایک شام جو پردیس میں اترتی ہے
تمہیں خبر ہی نہیں دل پہ کیا گزرتی ہے
پھر اسی انداز میں جذبات کی رو میں بہتے ہوئے فرمانے لگے
دیار غیر کی محفل میں اپنے دیار کی باتیں
جیسے خزاں میں بہار کی باتیں ۔
یادوں کے قافلے دل میں یوں اترتے ہیں
جیسے پردیس میں برسوں بعد کوئی گھر آئے۔
موجودہ حکومت سے ہزار شکایات ہوسکتی ہیں لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ اس نے اوورسیز سے متعلقہ اداروں جیسا کہ او پی ایف اور او پی سی میں اوورسیز پاکستانیو ں کو بنیادی عہدے دیکر اوورسیز کا دیرینہ مطالبہ پورا کیا ہے ۔ دوسری جانب چودھری سالک حسین نے بطور وفاقی وزیر اوورسیز بھی جن کوششوں کا آغاز کیا ہے ان کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ۔ جن میں سب سے اہم اوورسیز کے لیے خصوصی عدالتوں کا قیام ہے جہاں 90 دن کے اندر فیصلے سنائے جائیں گے۔ جائیداد کی منتقلی کے لیے آن لائن پاور آف اٹارنی کی سہولت بھی متعارف کرائی گئی ہے، جبکہ پاسپورٹ بلاک ہونے سمیت دیگر پیچیدہ مسائل کا بھی حل نکالا گیا ہے۔ لندن جلسے میں چودھری سالک حسین بھی وزیر اعظم کے ہمراہ موجود تھے۔ انہوں نے بھی اپنے خطاب میں اوورسیز پاکستانیوں کو قومی سرمایہ قرار دیا۔ ذاتی طور پر میری ان سے ملاقات ہوئی جس میں میں نے ان کے حالیہ اٹلی کے دورے اور اہم معاہدے سائین کرنے پر شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی انہیں یہ تجویز دی کہ اطالوی، ہسپانوی اور جرمن ایمبیسیوں کی اپوائنٹمنٹ کے مسائل پر بھی خصوصی توجہ دی جائے تاکہ یورپ میں مقیم پاکستانیوں کو آسانی ہو۔ میں نے انہیں مختلف نوعیت کے باہمی معاہدوں کی ضرورت کی طرف بھی توجہ دلائی تاکہ دونوں طرف کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔
چودھری سالک حسین کی وزارت اوورسیز اور اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن کی محنت ہے کہ سال 2025ء کے دوران اوورسیز پاکستانیوں کے لیے دو بڑی کانفرنسز منعقد ہوئیں ایک پاکستان میں، دوسری حالیہ لندن میں۔ جس میں برطانیہ اور یورپ سے پاکستانیوں نے شرکت کی۔ اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن (او پی ایف) کے صدر سید قمر رضا خود بھی ایک اوورسیز پاکستانی ہیں جنہوں نے اسے کامیاب بنانے میں بہت محنت کی تو دوسری طرف جب سے افضال بھٹی کو ایم ڈی او پی ایف بنایا گیا ہے، تب سے اوورسیز کے مسائل وزیر اعظم کی ترجیحات میں لگاتار سننے کو مل رہے ہیں ۔
اگرچہ او پی ایف اس کامیاب تقریب پر بجا طور پر مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے اوورسیز پاکستانیوں کو وہ مقام دلوایا جس کی انہیں مدتوں سے ضرورت تھی، لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج اوورسیز کمیونٹی کے اندر سیاسی تقسیم اور پولرائزیشن کو ختم کرنا ہے۔ سیاست کے نام پر جو لوگ ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو جاتے ہیں، اس روش کو اب ترک کرنا ہوگا۔ اوورسیز پاکستانیوں کو متحد کرنے کا وقت آ چکا ہے۔اور بیرون ملک پاکستانیوں کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ وہ بے شک کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھیں لیکن اس بنا پر ایک دوسرے سے نفرت کرنے کی بجائے ۔ سمندر پار مقیم پاکستانیوں کے حقوق کے لئے مشترکہ آواز اٹھایا کریں ۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ملک میں جس بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہوگی اوورسیز کے مسائل ہر حکومت کی ترجیح رہیں گے لندن میں ہونے والی تقریب میں وزیر اعظم اور وفاقی وزراء نے سمندر پار مقیم پاکستانیوں کو جو عزت دی وہ قابل تحسین ہے۔ لیکن دوسری جانب حیران کن طور پر مسلم لیگ (ن) کی برطانیہ میں موجود قیادت کو اس جلسے میں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔ کسی بھی وزیر نے اپنے ہی پارٹی کے سیاسی کارکنان کا نام تک نہیں لیا ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ ایسا تاثر دیا جائے کہ یہ تمام اوورسیز پاکستانیوں کا جلسہ تھا ۔ اس سال اوورسیز پاکستانیوں کے لئے ہونے والے اہم جلسے ایک امید کی کرن جگا رہے ہیں کہ اب اوورسیز کے مسائل کے حل کی جانب سنجید ہ کوششیں ہو ں گی ۔ لندن کا یہ جلسہ ایک نئی شروعات کی علامت صرف اسی صورت ہو سکتا ہے، اگر اس کے پیچھے چھپے جذبے کو مستقل پالیسیوں اور عملی اقدامات کی شکل دی جائے۔کیونکہ اوورسیز پاکستانی نہ صرف وطن سے محبت کرتے ہیں بلکہ وطن کے لیے جیتے ہیں، کماتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں۔ ان کے مسائل کو ترجیح بنیادوں پر حل کرنا ملکی ترقی میں اہم ثابت ہو سکتا ہے ۔
کیونکہ یہ شعر بھی وزیر اعظم نے اسی جلسے میں دھرائے کہ
دعائیں ماں کی پہنچانے کو میلوں میل جاتی ہیں
کہ جب پردیس جانے کے لیے بیٹا نکلتا ہے
کئی اندھیروں کے ملنے سے رات بنتی ہے
اور پھر چراغوں کی بات بنتی ہے
#محموداصغرچودھری



Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN