Mahmood Asghar
Choudhary
Home
Columns
Immigration Columns
Pictures
Contacts
Feedback
آزادکشمیر میں حالات خراب .. 2 اکتوبر 2025
Download Urdu Fonts
آزاد کشمیر سے ملنے والی تازہ خبروں میں کئی شہریوں اور تین پولیس اہلکاروں کے جان بحق ہونے کی اطلاعات ایک بار پھر بتا رہی ہیں کہ ہماری سیاسی قیادت معاملات کو سیاسی طریقے سے حل کرنے میں ناکام ہے۔ ان واقعات اور اس کے بعد انٹرنیٹ کی بندش نے ایک ایسا منظرنامہ پیدا کیا ہے جس سے کئی طرح کے خطرات جنم لے سکتے ہیں۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے بیشتر مطالبات ایسے نہیں ہیں جنہیں تسلیم کرنا ناممکن ہو۔البتہ ان مطالبات پر احتجاج کرنے والوں پر غیر ملکی سازش کا لیبل لگا دینا مسئلے کا حل ہرگز نہیں۔ اس کے بجائے ضروری تھا کہ حکام بروقت بات چیت اور مصالحت کا راستہ اپناتے، اور عوام کے سامنے شفاف انداز میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے۔ حکمران طبقات کی جانب سے ایک چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کو چائے کی پیالی میں طوفان بپا کرنے کی ایک پرانی روایت ہے جو ہر جگہ نظر آتی رہتی ہے یعنی جہاں مسئلہ موجود نہیں وہاں تنازعہ پیدا کرنے کی عادت واضح ہو تی رہتی ہے۔ اس وقت پاکستان بیرونی محاذ میں گہری سازشوں کا شکار ہے ایسے میں کسی بھی اندرونی کشیدگی کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ کشمیری بار بار واضح کر رہے ہیں کہ ان کو ئی بھی احتجاج کسی ادارے کے خلاف یا کسی سازش کی مرہون منت نہیں ہے اور اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ مطالبات آج شروع نہیں ہو ئے بلکہ 2023سے جاری ہیں ۔ ان کے اڑتیس پوائنٹس میں بیشتر نکات بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ہیں جیسے آٹا، بجلی، فون سروس، نوکریاں اور روزگار ایسے امور کے لئے کون سے معجزے کی ضرورت درکار ہے . اس کے لیے سختی سے مظاہرین کو دبانے کے بجائے پالیسی سطح پر اصلاحات، شفافیت اور وسائل کی تقسیم میں انصاف کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ جہاں تک مہاجرین کی مخصوص نشستوں کا سوال ہے،۔ یہ مطالبہ عجیب ہے ۔ ہم دنیا بھرمیں مقیم پاکستانیوں کے حقوق کے ووٹ کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں اور کشمیری جنہیں یہ حق ملا ہوا ہے انہوں نے کیا سوچ کر اس مطالبے کو اپنی لسٹ میں شامل کیا ہے سمجھ سے باہر ہے ۔ اس معاملے پر محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں مہاجرین نے کشمیر کے مسئلے کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ ایسا مطالبہ ان کشمیری مہاجرین کے اندر احساس محرومی پیدا کرے گا ۔ اور ان کی نمائندگی ختم کرنا کشمیر کاز کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔البتہ اشرافیہ کی مراعات اور حکمرانوں کے شاہانہ اندازِ زندگی میں کٹوتی کی شقیں بلاشبہ قابلِ ستائش ہیں ، بلکہ میرا تو خیال ہے کہ یہ ایسے شق ہے جس پر پنجابیوں اور پاکستانیوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ وہ کب اپنے آقاؤں سے سوال کریں گے دوسری جانب انٹرنیٹ کی بندش اور خبروں پر پابندی کا برا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ پڑوسی ممالک اور بین الاقوامی حلقے اس پورے قضیے کو اس انداز سے پیش کر رہے ہیں جیسے خدانخواستہ کوئی مسلح جدوجہد شروع ہو گئی ہو، حالانکہ یہاں معاملہ عوامی احتجاج اور مطالبات کا ہے۔ پوری دنیا میں عوامی احتجاج ایسے ہی ہوتا ہے لوگ سڑکوں پر آتے ہیں اور اپنے حقوق مانگتے ہیں ۔ اس پرامن احتجاج کو عسکری یا آزادی کی جنگ سے جوڑنا حقیقت کے منافی ہے جو لوگ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں انہیں اور دنیا کو پیغام دینا چاہیے کہ اس کشمیر کا نام آزاد کشمیر ہے ۔ جس کی ہر وادی اور ہر گلشن میں پاکستان کا نام مہکتا ہے ۔جس کے ہر گاؤں میں پاکستان آرمی سے تعلق رکھنے والے کشمیریوں کی قبریں ہیں
Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام
Admin Login
LOGIN
MAIN MENU
کالمز
امیگریشن کالمز
تصاویر
رابطہ
تازہ ترین
فیڈ بیک
Mahmood Asghar Chaudhry
Crea il tuo badge
Mahmood Asghar Ch.