Mahmood Asghar

Choudhary

نام میں چھپی تقدیر .. سیناگوگ پر حملہ مانچسٹر 3 اکتوبر 2025
Download Urdu Fonts
نام میں چھپی تقدیر برطانوی ہوم سیکرٹری شبانہ محمود نے بالکل صحیح کہا ہے کہ میں خود مسلمان ہوں لیکن کسی نوجوان کا نام'' جہاد ''پہلی بار سن رہی ہوں ۔ جہاد الشامی وہ شامی نژاد برطانوی شہری ہےجس نے کل یہودیوں کے انتہائی اہم مذہبی دن پر دہشتگرد انہ حملہ کیا پہلے اس نے اپنی گاڑی راہگیروں پر چڑھائی اور پھر باہر نکل کر سیناگوگ میں عبادت کے لیے جمع لوگوں پر چاقو سے حملہ کیا۔ اس سانحے میں تین لوگ زخمی اور دو جاں بحق ہوگئے۔ یوم کفارہ یہودیوں کا انتہائی مقدس دن ہے ۔ وہ اس دن وہ روزہ رکھتے ہیں اور اجتماعی عبادات کرتےہیں ۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ اس دن اللہ تعالی ٰ انسانوں کی موت وحیات کے فیصلے کر دیتا ہے کہ کس نے کتنے جینا ہے اور کس نے کتنی زندگی گزارنی ہے ۔ جہاد الشامی کی عمر 35 سال تھی اور وہ بچپن میں شام سے برطانیہ آیا تھا ۔ 2006ء میں اسے برطانوی شہریت دے دی گئی تھی ۔ اس کا والد سرجن ہے جو انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس سے وابستہ رہ چکے ہیں ۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے اس نے اپنے فیس بک پیج سے یہ پوسٹ شئیر کی ہے اورسانحے پر گہرے صدمے اور افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی اس حرکت سے فاصلہ اختیار کرتے ہیں اور میڈیا سے التماس کیا ہے کہ وہ اس فیملی کی پرائیویسی کا خیال رکھا جائے مگر اب پچھتائے کیا ہوت ۔کہتے ہیں کہ ناموں کا اثربچوں کی زندگی پر بڑا گہرا ہوتا ہے ۔ کاش جب انہوں نے بچے کا ایسا نام رکھا تواسے یہ بھی سمجھا دیتے کہ جہاد کا مطلب ''اپنے نفس کے خلاف کوشش ''ہے ۔ یہ معصوم شہریوں پر حملہ کرنے کا نام نہیں ہے ۔ کسی عبادتگاہ میں جانے والوں پر حملہ کرنا تو اسلام میں جنگ کے دنوں میں بھی جائز نہیں ہے ۔ بچے ہم سے ہی سیکھتے ہیں جو باتیں ہم سارا دن سکھاتے ہیں کرتے ہیں ۔ جو پوسٹس ہم شئیر کرتے ہیں جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں وہ ان کے ذہن میں نقش ہوتی رہتی ہیں ۔ ہم جو سارا دن دنیا کے دیگر ممالک میں ہونےوالی خرابیوں کا تذکرہ نوجوان کو سامنے تو کرتے رہتے ہیں لیکن کاش کبھی کوئی ایسا لیکچر بھی کوئی عالم دے کہ جس ملک کا ہم نے پاسپورٹ لیا ہے اس کے ساتھ سماجھی بندھن کا ایک معاہدہ بھی کر لیا ہے ۔ اس کے لوگ ، اس کے شہری ہمارے پڑوسی ہیں ۔ وہ ملک جو ہمیں تعلیم صحت ، روزگار فراہم کر رہاہے ۔ جس کی سہولیات سے ہم مستفید ہورہے ہیں اس کا قانون توڑنا ۔ اس کے شہروں کوغیر محفوظ بنانا ۔ اس کے شہریوں کی زندگیوں کے لئے خطرہ بننا نہ تو کوئی مذہب اس کی اجازت دیتی ہےا ور نہ ہی کوئی اخلاقیات ۔ شامی تو پولیس کی گولی سے ہلاک ہوگیا ۔ لیکن اس کی اس حرکت کا خمیازہ یورپ اور برطانیہ میں مقیم لوگوں کو اب کئی سال بھگتنا پڑسکتا ہے ۔ انہیں ہر بار اپنی وفا داریوں کا یقین دلانا پڑے گا ، ہر بار اس وطن سے محبت کا ثبوت فراہم کرنا ہو گا ۔ دوسری جانب ایک اہم سوال ہے کہ اگر ایک ڈاکٹر کا بیٹا بھی انتہا پسند بن سکتا ہے تو عام شہری کس سے اور کیا علم سیکھے



Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN