Mahmood Asghar

Choudhary

حافظ لیگل ٹیکنیکل آفیسر .... 18 اکتوبر 2025
Download Urdu Fonts
زندگی ہمیشہ تمہیں اُسی خوبی یا ہنر کے ذریعے آزما‌ئے گی جو تمہارے اندر موجود ہے ۔۔ کسی بہت پرانے صوفی کا قول ہے ۔ اتنا پرانا کہ اس لائین کے لکھنے والےکا نام بھی تاریخ کے صفحوں سے غائب ہو چکا ہے ۔ لیکن یہ بات آپ آزما کر دیکھ لیں اس کی حقیقت واضح ہوجائے گی دفتر میں چونکہ اب گریجویشن اور ماسٹرز مکمل کر کے آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا ۔ایک لڑکا قانون کی ڈگری مکمل کر چکا تھا اور باقاعدہ ایک اطالوی لا فرم میں ٹرینی وکیل کا تجربہ لےرہا تھا ۔ ایک لڑکی سائیکالوجی میں ڈگری مکمل کر کے آئی تھی ۔ کچھ کا تجربہ دس بیس سال کا تھا ۔ تو ا سکا نقصان یہ ہوا کہ ہر وقت ایک ہی قانون پرمختلف زاویوں پر بحث شروع رہتی ، یعنی قانون کی جتنی باریکیاں ہیں، ان سے کیسے نمٹا جائے، کسی نئے قانون کی کون سی تشریح کو باقاعدہ دفتر کی پالیسی بنایا جائے، اس پر ہر وقت تنازع رہتا ۔ اس لئے فیصلہ کیا گیا کہ ایک ایسا لیگل ٹیکنیکل آفیسر کا عہدہ بنایا جائے جو دفتر کا نظم و نسق چلائے ، جس کی تشریح حتمی ہو ۔ جس کے حکم کےبعد ہر بحث دم توڑ جائے ۔جس کے فیصلے پر من و عن عمل کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہو ۔
جب میں نے ٹریڈ یونین جوائن کی، تو سمجھ گیا کہ اس میں ترقی کا اہم گر تقریر کا فن ہے۔میں نے دوسری جماعت میں پہلی تقریر کی تھی ، اس کے بعد ہر سال سکول، کالج، محلے کی مسجد، گاؤں کے جلسے، طلبہ تنظیم میں بے تکان بولتا ہی جار ہاتھا ۔ اٹلی میں بھی مختلف این جی اوز کے فورم پر تقاریر کرنے کی عادت پڑچکی تھی ۔ مگر وہ سب جذباتی تقریریں ایک ٹیکینکل اور لا کے حوالے سے کارگر نہیں تھی یہاں تقریر میں ادب کے ساتھ فیکٹس اور فگرز بھی یاد ہونے چاہیے۔
اس دوران مجھے اٹلی کے مختلف شہروں ، بلونیا، میلان ، روم میں امیگریشن کانفرنسز اور جلسوں میں جانے کا موقع ملا تو دوسروں کے طرز تقر یر پر غور کرنا شروع کیا ۔ لیکن اطالوی وکلا کی ثقیل بحثیں اور سیاستدانوں کی بھول بھلیاں اتنی بورنگ ہوتییں کہ لوگ اونگھنا شروع کر دیتے ۔ پھر ایک دن بلونیا شہر میں ایک نوجوان تقریر کے لیے ڈائس پر آیا، تو اس کے ایک جملے پر ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ۔ وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی تقریر میں قانون کی شق نمبر ، جزو نمبر جیسے حوالے دیتا تو اطالوی وکلاء بھی حیران ہو کر استے دیکھنا شروع کر دیتے ۔ اس نوجوان کا تعلق الجزائر سے تھا اور نام تھا عمر۔ اب ہر امیگریشن کانفرنس میں اس کی تقریر کا انتظار سب کو ہوتا۔ جب وہ لمبے قوانین اور شقیں زبانی دھراتا تو لوگ انگشت بدندا ں ہوجاتے ۔ ایک دفعہ وہ گزر رہا تھا کہ ایک اطالوی خاتون نے دونوں ہاتھ جوڑے اور اسے سانتیتا ۔۔یعنی ہز ہولینیس کہا ۔ اسی دن میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں بھی اسی کا طرز تقریر اپناؤں گا ۔
میں اس کے قریب گیا ہاتھ ملایا اور پوچھا کہ اتنے قانون کے حوالے آپ کو کیسے یاد رہ جاتے ہیں؟ عمر سے دوستی ہوگئی تو ا س نے بتایا کہ اصل میں میں حافظ قرآن ہوں اور امام مسجد بھی رہا ہوں۔ جمعے کے خطبے میں جس طرح حوالہ دیتا ہوں، قانون میں بھی اسی انداز سے نمبر یاد رکھتا ہوں۔
میں نے کہا: یہ تو کمال ہے، یعنی اطالوی قانونی موشگافیوں میں مولویوں کا کام بھی بہت کام آیا ۔ اسی روز میں نے عہد کر لیا کہ اسی طریقے سے تقریر کروں گا۔ میں حافظ نہیں تھا، لیکن گریجویشن میں ڈبل میتھ فزکس پڑھ کر آیا تھا، اس لیے آرٹیکل نمبر یاد کرنا کوئی مسئلہ نہیں ، قانون کی شقیں از بر کرنا شروع کر دیں ۔ عمر سے ایک قدم بڑھ کر میں نے قانون نمبر ، شق نمبر کے ساتھ قانون کا سال اور بنوانے والے کا نام بھی یاد کرنا شروع کر دیا ۔ قانون کا تجزیہ یا تشر یح سمجھنے میں سب سے زیادہ مدد میرے اردو قارئین نے کی، کیونکہ میں جذبہ پر اردو میں کالم لکھتا تھا۔ اطالوی میں جو پڑھتا، اردو میں تجزیہ کرتا، دونوں زبانوں میں یاد رہتا۔ انٹرنیشنل قارئین کے سوالات کے جوابات بھی ڈھونڈ کر زیادہ محنت کے بعد بہتر ہوتے۔
یہ اصول میں نے ہر تقریر میں اپنا لیا۔ جذباتی تقریر کے ساتھ ہر شق کا حوالہ ضرور دینا۔ اس سے ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ ابھی جنریشن زی نہیں آئی تھی، تو اگر کسی حوالہ میں غلطی ہو بھی جائے، وہ اسے فوری چیک نہیں کرتے تھے۔ اس طرز تقریر کی وجہ سے دفتر والوں مجھے ہی اسے عہدے پر مقرر کر دیا ۔ یعنی میں پہلا پاکستانی غیر ملکی تھا جس کے لئے یہ لیگل ٹیکنیکل آفیسر کا عہدہ بنایا گیا ۔ تمام دفاتر کو ای میل کر دی گئی کہ میری ہر بات مصدقہ، محققہ اور تسلیم شدہ سمجھی جائے ۔ لیکن کبھی پولیس کے امیگریشن آفس کے ساتھ کوئی بحث ہوتی یا کبھی کسی کونسل کی کوئی تشر یح کا مسئلہ ہوتا یا کبھی کسی کیس میں وزارت داخلہ یا پریفیٹ کے ساتھ الجھنا پڑتا تو پولیس سے ڈرنے والے اور محتاط رہنے والے کوئی دوسرا ورژن دینے کی کوشش کرتے تو نزاع پھر شروع ہوتا تو ایک دن بوس نے میٹنگ کال کی وہ بہت غصے میں تھا ۔ اس کا رنگ سرخ ہوگیا ور بڑے تحکمانہ انداز میں سب کو مخاطب کر کے کہنےلگا۔ ایک بار دوبارہ دھرا دوں ۔۔ “آج کے بعد مجھے دفتر میں کوئی بحث نہیں چاہیے۔ جو بھی رائے دینا چاہتے ہیں دیں، لیکن حتمی فیصلہ صرف اور صرف محمود کا ہوگا۔ اور اس کی رائے آجانے کے بعد مزید کسی بحث کی گنجائش نہیں ہوگی ۔ دفتر میں خاموشی چھا گئی۔ اس دن کھانے پر میں نے بوس سے کہا کہ اس اعتماد کا شکریہ بس ایک درخواست ہے کہ میں تمہیں اپنے گھر ڈنر پر بلانا چاہتا ہوں اور چاہتا ہوں اور تمہیں اسی جوش اور غصے کے ساتھ یہ بات تمہیں میری بیوی اور میرے گھروالوں کے سامنے بھی کرنی ہے کہ 'کہ آج کے بعد کسی بھی فیصلے پر صرف اور صرف محمود کا حکم چلے گا۔” اس نے ریٹورنٹ میں اتنے زور سے قہقہ لگایا کہ لوگ دیکھنا شروع ہوگئے ۔۔ بولا یہ بات تو میں اپنے گھر میں اپنے گھر والوں کو نہیں کہہ سکتا کجا یہ کہ تمہارے گھر آکر کہوں ۔۔ بوس ۔ لیگل آفیسر ، ٹیکینکل آفیسر یہ سب ہم باہر ہوتے ہیں گھر پر ہمیں کوئی نہیں مانتا ۔



Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN