Mahmood Asghar

Choudhary

انقلاب یا آزادی .... 16ستمبر 2014ء
Download Urdu Fonts
پاکستان میں گزشتہ ایک ماہ سے جاری آزادی اور انقلاب مارچ کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہمارے معاشرے کے بہت سے کردار کھل کر سامنے آگئے ہیں مثلا ً اس بحران کے بعد یہ ثابت ہوا ہے کہ ہمارے سیاستدان مذاکرہ اور ڈائیلاگ میں اتنے نااہل ہیں کہ وہ ایک مہینے میں بقول ان کے چند ہزار لوگوں کو بھی قائل نہیں کر سکے اور ان کے دھرنے کو ختم نہیں کرا سکے مثلاً اس سے عدالت عالیہ کا کردار نکھر کر سامنے آگیا ہے کہ وہ عدالت کے باہر لٹکی ہوئی شلوار پر ایکشن لیکر توہین عدالت کا کیس بنا سکتی ہے لیکن وہ 16لاشوں کو نظر انداز کر سکتی ہے مثلاً اس سے یہ پتہ چلا ہے کہ پولیس کی ایما پر ڈنڈا چلانے والے گلو بٹ کو گلے سے لگایا جانا چاہیے اور میوزک سنانے والے ڈی جی بٹ کو دہشت گرد قرار دیا جانا چاہیے مثلاً اس سے یہ ثابت ہوا کہ جو مذہبی لیڈر گلے پھا ڑ پھا ڑ کر اس نظام کو کافرانہ کہتے ہیں اپنے مفادات کی خاطر وہ اسی نظام کے بچاﺅ کے لیے جلوس بھی نکال سکتے ہیں مثلا ً اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھا ہوا شخص فوج سے مد د طلب کرے اور دوسرے دن کہے کہ اس نے ایسا نہیں کیا اور تیسرے دن متعلقہ ادار ہ کی جانب سے تردید آجانے پر بھی شرمندگی کا اظہار نہ کرے تو وہ صادق اور امین بھی رہتا ہے اور پارلیمنٹ میں کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں مثلا ً اس سے یہ پتہ بھی چلا کہ اپوزیشن یہ تسلیم کرے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے تو بھی اپنی کرسیاں بچانے کے لیے حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی مثلا ً اسے یہ بھی پتہ چلا کہ اگر کبھی ملک کے وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میں بلانا ہو یا پارلیمنٹ کا کوئی مشترکہ سیشن کرنا ہو تو ضروری ہے کہ کوئی ایسا مسئلہ آن پڑے جن میں ان کے اقتدار کو دھچکہ لگتا ہو ،مثلاً اس سے یہ پتہ بھی چلا ہے حکومت وزیر اور اپوزیشن کے جذباتی لیڈر کے پاس ایک دوسرے کی کرپشن کے ثبوت موجود ہیں لیکن وہ جمہوریت کے بچاﺅ کے لیے ایک دوسرے سے صلح کر لیتے ہیں مثلاً اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ پارلیمنٹ اتنی مقدس ہے کہ اس کے فلور پر کھڑے ہوکر مولانا فضل الرحمن پاکستانی عورت کی توہین کرے تو پارلیمنٹ میں بیٹھی کوئی عورت بھی اس کے ناموس کے لیے مولانا کو شٹ اپ کال نہیں دے گی مثلا ً اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ کئی دنوں کے مشترکہ سیشن والوں کے لیے پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر سردی گرمی اور بارش کا مقابلہ کرنے والے انسان نہیں کیڑے مکوڑے ہیں اوران کے مطالبات پر کسی قسم کی کوئی گفتگو نہیں ہوسکتی مثلاً اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کے ذہن میں عورت کا تصور صرف چولہے کے سامنے بیٹھنا ہے اور کسی سیاسی جد و جہد میں اس کی شرکت نامناسب ہے
عمران خان اور طاہر القادری کو اور کوئی کریڈیٹ دو یا نہ دو لیکن یہ کریڈیٹ تو انہیں دینا ہی چاہیے کہ انہوں نے عام مزدور غریب شخص کو پارلیمنٹ کے باہر لا کر بٹھا دیا ہے اس طرح پارلیمنٹ کے اند ر بیٹھے ہوئے رﺅسا کو یہ پتہ چل سکے کہ جب کسی کا راستہ روکا جاتا ہے تو کتنی اذیت محسوس ہوتی ہے مجھے وہاں پر کپڑے دھونے والی ہر عورت اچھی لگتی ہے کہ شاید وہ انہیں یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجائے کہ جب کسی عورت کی ڈیلیوری رکشے میں صرف اس لیے ہوجاتی ہے کہ ملک کے وزیر اعظم کے پروٹوکول میں سڑکیں بند تھیں جب ان لیڈرز کے ہسپتال کے دورے کے دوران زخمی مریضوں اور نوزائیدہ بچے کی ماں کو اس لیے نکال دیا گیا تھا کہ پروٹوکول میں ایسا ضروری تھا تو کتنادکھ ہوتاہے آج مجھے وہاں کرکٹ کھیلتا ہوا ہر بچہ پیارا لگتا ہے کہ وہ ان کا منہ چڑا کر اس بچے کا بدلہ لے رہا ہے جسے وزیر اعظم سے ملنے کے لیے سات بار نہلایا گیا تھا مجھے پارلیمنٹ کے باہر بیٹھا ہوا اصلی پاکستان دیکھ کر گونا خو شی محسوس ہوتی ہے کہ وہ جن کی جیب میں پاکستانی شناختی کارڈ ہے لیکن ان کے لیے یہ علاقے ممنوع تھے آج ان سیاسی لیڈروں کو آئینہ نظر آجانا چاہیے کہ دیکھ لیں آپکا پاکستان جو آج تک آپ نے تیار کیا ہے آج آپ کو انہیں دیکھ کر شرم کیوں آتی ہے یہ پارلیمنٹ کے باہر اپنی شلواریں اور کچھے سکھانے والے آپکی رعایا ہیں یہ وہ آئینہ ہے جو اگر آپ عقل سلیم رکھتے ہوتے تو آپ کو سمجھ آجاتی کہ آپ کی حکمرانی کی ترجیحات میں کیا کمی رہ گئی تھی جو آج یہ آپ کے دروازے تک آپہنچے ہیں یہ وہی ہیں جو 12ہزارکی آمدن میں 16ہزار کا بجٹ بناتے ہیں جن کے گھروں میں بائیس بائیس گھنٹے بجلی نہیں آتی لیکن وہ آپ کو ان ٹھنڈے ایوانوں میں صرف اس لیے بھیجتے ہیں کہ آپ ان کے بارے پالیسی بنائےں گے ان کی قسمت میں لکھے اندھیروں میں روشنیاں لائیں گے
اس آزادی اور انقلاب مارچ کے بارے بہت سے لکھاریوں اوردانشوروں کو یہ بے چینی ہوگئی ہے کہ یہ سب کچھ پہلے سے لکھا گیا ڈرامہ ہے اور یہ ملک سے جمہوریت کو ڈی ریل کر دے گاان کا خیال ہے کہ اس سے آمریت کی راہ ہموار ہو گی اور وہ اس سوچ میں حق بجانب بھی ہے کیونکہ پاکستانی کی آدھی تاریخ ڈکٹیٹر شپ نے ہضم کر دی ہے اور اگر آج پاکستانی تنزلی کی اس کھائی میں گرا ہوا ہے تو اس میں الزام بھی اسی نظام پر آنا چاہیے جس نے اس پر زیادہ عرصہ تک حکمرانی کی لیکن ہمارے دانشور جمہوریت کی مغربی طرز حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ اس طرز حکمرانی میں ایسی مثال کہیں نہیں ملیں گی جس میں 16 لاشیں گرا دی جائیں اور کسی پر ایف آر بھی نہ کٹے کوئی ان کے آنسو پونچھنے ان کے گھر کی دہلیز تک بھی نہ پہنچے جس میں ساری جماعتیں چیخ چیخ کر یہ مانیں کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے لیکن وہ صرف چار حلقوں کے ووٹوں کی دروبارہ تصدیق پر رضا مند نہ ہوں
عمران خان کے مطالبے میں کونسی ایسی چیز ہے جو غیر جمہوری ہے کیا اس نے انتظار نہیں کیا اس نے عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا جمہوریت میں جب مختلف فورمزپر مطالبات نہیں مانے جاتے تو جمہوری قوتیں بندوق نہیں اٹھاتی بلکہ لانگ مارچ اور مظاہروں کا راستہ ہی اپناتی ہیں اس میں اتنے اچھنبے کی بات کیا ہے مارٹن لوتھر کنگ نے امریکہ میں 385دن تک سول نافرمانی کی تحریک چلائی کونسی جمہوریت میں پرامن احتجاج کرنے والوں کو” دہشت گرد“ ،” گھس بیٹھیے“لشکری اور خانہ بدوش کا خطاب ملا ہے عوام کے خلاف توہین تزہیک اور طنز کا یہ رویہ پاکستان میں ہی ہوسکتا ہے جہاں کا میڈیا غلیل کو بھی سامان دہشت گردی پینٹ کرتا ہے شاید انہوں نے جی ایٹ اور یورپین ممالک میں ہونے والے پرتشدد مظاہرے کبھی دیکھے یا سنے نہیں
سن 2006ءمیں اٹلی میں پرودی کی حکومت صرف 25ہزار ووٹوں سے کامیاب ہوئی اس وقت کے اپوزیشن لیڈ ر سلویو برلیسکونی نے کہا کہ وہ سارے ووٹوں کی گنتی دوبارہ کروانا چاہتے ہیں کیونکہ فرق اتنا کم ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ووٹو ں کے گننے میں کسی قسم کی کوتاہی رہ گئی ہو ، جیتنے والے لیڈر رومانو پرودی نے بڑی خندہ پیشانی سے سلویو برلیسکونی کے مطالبات کو تسلیم کیا اور اتنے دنو ں تک وزارت عظمی کی کرسی سنبھالنے کی ضد نہیں کی جب تک سارے کے سارے ووٹ دوبارہ نہیں گنے گئے دوبارہ گنتی میں ووٹ اتنے ہی نکلے جتنے پہلے تھے پورے ملک میں صدر سے لیکر الیکشن کمیشن تک کسی نے بھی اس مطالبے پر کسی قسم کا اعتراض کیا اور نہ ہی کوئی واویلا مچایا اس کی وجہ صرف اتنی تھی کہ الیکشن کمیشن کے ہاتھ صاف تھے اور انہیں کسی قسم کا کوئی ڈر خوف نہیں تھا کہ دوبارہ گنتی سے کوئی پول کھل سکتا ہے
پاکستان عوامی تحریک اور طاہر القادری کا یہ مطالبہ کہ آئین کا پورا پورا نفاذ ہونا چاہیے اس میں سیاستدانوں کو کیا چیز غیر جمہوری یا غیر آئینی لگتی ہے اگر پاکستان میں صحیح معنوں میں جمہوریت موجود ہوتی تو ان دونوں جماعتوں سے ڈائیلاگ کا راستہ اپنا یا جاتا اور مظاہروں تک کی نوبت ہی نہ آنے دی جاتی لیکن کیاں کریں کہ پاکستان میںایک ایسے نظام کے بچاﺅ کا شور ہے جس کی نہ تو کسی کے پاس ٹریننگ ہے اور نہ ہی کوئی جماعت الا ماشاءاللہ ایسی تمام جمہوری روایات کی امین ہے کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کی لیڈر شپ کو دیکھیں تو وہ کسی ایک ہی شخصیت کے گرد گھومتی ہے اگر اس جماعت میں سے اس شخصیت کو یا اس کے خاندان کو الگ کر دیا جائے تو اس جماعت کا سارا وجود ڈگمگانے لگتا ہے یہ جماعتیں ملک میں تو جمہوریت کی خواہاں ہیں لیکن ان جماعتوں کے اندر جمہوریت کا وجود دور دور تک نظر نہیں آتا۔
طاہرالقادری کے انقلاب اور عمران خان کے نئے پاکستان کا کیا ہونے جا رہا ہے اس کا انحصار تو ن لیگ کی پالیسی پر ہو گا کہ وہ کسی سیاسی خود کشی کا فیصلہ کرتے ہیں یا اس بحران سے نکلتے ہیں کہ وہ اس وقت حکومت میں ہیں اس لیے البتہ انقلابی اور سونامی لیڈروں کو ایک کریڈیٹ ضرور دینا چاہیے کہ انہوں نے عام آدمی کے اندر اپنے حقوق لینے کا جو جذبہ اور جنون پیدا کر دیا ہے یہ جنون پاکستان کے مروج سیاسی نظام کی چولیں ہلا کر رکھ دے گا پاکستان کی تاریخ کا اتنا بڑا دھرنا اگر کسی غیر سیاسی قوت کے ہاتھوں یرغمال نہ بنا تو تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی جماعتوں کے اندر تبدیلی پر غورو فکر کرنے کا موقع دے گا
تحریر محموداصغر چوہدری



Your comments about this column
KHAAK HO GAYE NAGEENAY LOG....HUKAMRAN BAN GAYE KAMEENE LOG.
Shafique Butt
Allah karre zore qalm aor ziada.aor ziada. Aor ziada.
Gujrat Guastalla
Allah karre zore qalm aor ziada.aor ziada. Aor ziada.
Gujrat Guastalla
Good asgher sb
Ashiq Hussain
Absolutely Right Sir.
M Afzal Shah Bukhari
Excellent and informative article. Well done
Muhammad Nadeem Yousaf
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN