Mahmood Asghar

Choudhary

یورپین پاسپورٹ‌والے پاکستانیوں کے دوسرے ممالک میں‌حقوق
Download Urdu Fonts
اسپین سے ایک ای میل موصول ہوئی ہے جس میں قاری کی کہنا ہے کہ اس کے پاس اسپینش نیشنلٹی ہے اور وہ اپنی فیملی پاکستان سے منگوانا چاہتا ہے لیکن پاکستان سے ہسپانوی سفارت خانہ میں بہت زیادہ ٹائم لگ جاتا ہے تو کیا کوئی ایسا ملک ہے جہاں جا کر وہ اپنی فیملی کو جلدی سے جلدی منگوا لے ؟
یہ سوال بہت ہی دلچسپ اور اسکا جواب بڑا ہی سادا ہے یورپین یونین کے ممبر ممالک نے سال 2004 میں 2004/38/CE نام سے ایک قانون بنایا جس کو فری موومنٹ یا ”آزادانہ آمد ورفت “ کانام دیا گیا ہے یہ قانون اتنا سادہ اور اتنا آسان ہے کہ جس کا کماحقہ ہو فائدہ ابھی تک یورپین پاسپورٹ ہولڈروں نے اٹھایا ہی نہیں ہے یہ سوال صرف اسپینش نیشنلٹی ہولڈروں کے لیے ہی نہیں بالکل پورے یورپ میں رہنے والے یورپین نیشنلٹی ہولڈروں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے مثلا ً اب انگلینڈ اور جرمنی جیسے ممالک میں فیملی بلانے کے لیے ان ممالک کے شہریوں کے فیملی ممبران کو انگلش یا ڈچ زبان آنی چاہیے لیکن اگر انہی ممالک کے شہری کسی دوسرے یورپی ملک میں جاکر اپنی فیملی کو منگوانا چاہیں تو ان کی فیملی کو نہ تو کسی زبان سیکھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی سائل کو کسی خاص قسم کی آمدن شو کرنے کی ضرورت ہے سب سے پہلے تو یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ فری موومنٹ کا قانون ہے کیا؟
فری موومنٹ کا قانون یورپین یونین نے تو 2004ءمیں بنایا ہے لیکن بعد میں آہستہ آہستہ دیگر ممبر ممالک نے اس پر سائین کیا مثلاًبرطانیہ نے اسے سال 2006میں سائین کیا اور اٹلی نے اسے سال 2007ءمیں دستخط کیے اوراپنے اپنے ممالک میں لاگو کیا اس قانون کے تحت یورپی شہری اپنے پہلے درجے کے فیملی ممبر یعنی بیوی بچوں والدین یا ساس سسر کے ساتھ کسی بھی دوسرےورپین ممبر ملک میں نہ صرف آزادانہ طورپر سفر کر سکتا ہےں بلکہ اگر وہ ان ممالک میں رہائش اختیار کرتا ہے تو انہیں فی الفور پانچ سال کا رہائشی اجازت نامہ بھی دلوا سکتا ہے
یہ آزانہ آمدورفت کا قانون نہ صرف یورپین یونین کے ممبر ممالک میں لاگو ہوتا ہے بلکہ ان ممبر ممالک میں لاگو ہوتا ہے جن کے ساتھ یورپ کا فری ٹریڈ کا معاہدہ ہے جیسا کہ سوئٹزر لینڈ اور ناروے آیس لینڈ کے ممالک میں بھی اسی طرح لاگو ہوتا ہے سب سے دلچسپ پہلو اس قانون کا یہ ہے کہ اگر یورپین شہری اپنے ملک میں فیملی اپلائی کرتا ہے یا اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے تو اس پر اس ملک کا فیملی لا اپلائی ہوتا ہے جو مشکل بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ جرمنی میں لینگویج سیکھنے کا مسئلہ اور برطانیہ میں زبان کے علاوہ 18ہزارو چھ سو پاﺅنڈ کی سالانہ آمدن کا مسئلہ ہے لیکن اگر انہی ممالک کے باشندے کسی دوسرے یورپی ممبر ملک میں جا کر سکونت اختیار کرتے ہیں تو ان پر زبان ، آمدن یا اس قسم کے قوانین لاگو نہیں ہوں گے بلکہ یہی ایک اکیلا قانون ان کے فیملی ممبران کو اس ملک میں رہائش کی اجازت فراہم کردے گا
مثلاً اسپین کا شہری اگر اس بات پر شاقی ہے کہ پاکستان میں ہسپانوی ایمبیسی زیادہ وقت لگاتی ہے تو وہ کسی بھی دوسرے یورپی ملک میں جا کررہائش اختیار کرے اور وہاں اپنی فیملی منگوانا چاہے تو اس کی فیملی کو اس قانون کے تحت فیملی ویزہ دو ہفتوں کے اندر اندر ملنا چاہیے اسی طرح اگر جرمنی میں بیٹھے ہوئے جرمن شہری کو یہ مسئلہ ہے کہ اس کی بیوی پاکستان میں جرمن یا ڈچ زبان نہیں سیکھ سکتی تو وہ بھی کسی دوسرے ممبرملک میں جا کر فیملی اپلائی کرے تو اس ملک کی ایمبیسی اس کی بیوی سے جرمن زبان کا مطالبہ نہیں کر سکتی اسی طرح برطانیہ میں اگر کسی برطانوی شہری کو یہ مسئلہ ہے کہ اس کے پاس 18ہزارچھ سو پاﺅنڈ کی سالانہ آمدن نہیں ہے تو وہ بھی کسی دوسری یورپین ملک میں جا کر رہائش اختیار کرے تو اس ملک میں اپنی فیملی اپلائی کر سکے گا اور اس کی فیملی کو انگلش سیکھنے یا اسے متعلقہ آمدن شو کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی
اس قانو ن کے تحت فیملی ممبران میںبیوی یا شوہر کے علاوہ پارٹنر کی اصطلاح بھی پائی جاتی ہے یعنی اگر کسی نے یورپین قانون کے تحت اپنے ہم جنس سے بھی شادی کی ہوتو وہ بھی دوسرے ممبر ملک میں رہائش کا حق رکھتا ہے لیکن دیکھا یہ جائے گا کہ جس ملک میں رہائش رکھنے جا رہے ہیں وہ ایسی شادی کو مانتا ہے یہ نہیںیاد رہے کہ اسی شق کی وجہ سے اب ایسی خبریں مل رہی ہیں کہ لوگ یورپین ممبر ممالک کے ڈاکومنٹس بنوانے کے لیے ایسے ممالک میں جاکر اپنے ہم جنسوں سے پیر میرج کر رہے ہیں اور کا غذات بنوا رہے ہیں
اس قانون کے تحت بچوں کی امیگریشن کروانے کے لیے اٹھارہ سال کی شرط نہیں بلکہ 21سال کی عمر تک کے بچے پاکستان سے آسکتے ہیں بلکہ قانون میں یہاں تک گنجائش ہے کہ اگر 21سال کی عمر سے زیادہ بھی ہیں اوروہ اپنے یورپین نیشنلٹی ہولڈر والد یا والدہ پر انحصار کرتے ہیں تو وہ بھی اس ذمرے میں آتے ہیں بلکہ نہ صرف بچے بلکہ پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی اسی قانون میں آتے ہیں اور بچوں سے مراد صرف اسی جوڑے کے بچے نہیں ہیں بلکہ بیوی یا شوہر کے وہ بچے بھی شامل ہیں جو سائل کے نہیں بلکہ اس کی بیوی یا شوہر کے ہیںچاہےں وہ کسی اور مرد یا عورت سے ہوں اور وہ بچے بھی شامل ہیں جو بغیر شادی کے پیدا ہوئے ہوںان کے علاوہ یورپی شہری کے والدین ، والدین میں یورپی شہری کے اپنے والدین یا دادا دادی یا نانا نانی اور اسی طرح سائل کی بیوی یا شوہر کے والدین یعنی ساس سسر بھی شامل ہیں ، اسی قانون کے تحت اضافی فیملی ممبران میں یورپی شہری کے وہ بھائی بہن جو اس پرانحصار کرتے ہیں وہ بھی آجاتے ہیں
اب سوال یہ ہے کہ ایک یورپی شہری کسی دوسرے یورپی ملک میں سکونت یا رہائش اختیار کیسے کرے اس قانون میں درج ہے کہ کوئی بھی یورپی شہری کسی بھی ممبر ملک میں جا کر رہائش اختیار کرسکتا ہے بشرطیکہ وہ اس ملک کے محکمہ صحت پر بوجھ نہ بنے یعنی اگر کوئی یورپین شہری کسی دوسرے ملک میں جاکر روزگار تلاش کرلے یا اپنا بزنس شروع کرلے یا اپنے بنک اکاﺅنٹ میں اتنی رقم جمع کرادے جن سے یہ ظاہر ہو کہ وہ وہ اپنا خرچہ خود اٹھا سکتا ہے تو وہ کسی بھی دوسرے یورپین ملک میں رہائش اختیار کر سکتا ہے اور اسے اس ملک کا پانچ سال کا رہائشی اجازت نامہ مل جاتا ہے جہاں وہ اپنے ان فیملی ممبران کو اکٹھا کرسکتا ہے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اگر اس دوسرے یورپین ملک میں وہ شہری یا اس کا فیملی ممبر پانچ سال تک رہ لے تو اسے لامحدود مدت کا رہائشی اجازت نامہ مل سکتا ہے اسی یورپین قانون کا فائدہ اٹھا کر لوگ اپنے بھائی یا بہنوں کے کاغذات یورپین ممالک میں بنوا رہے ہیںاور بہت سے لوگ صرف اس بنا پر ملک تبدیل کر کے دوسرے یورپین ممالک میں جا کر رہائش اختیار کر رہے ہیںتاکہ اپنے رشتہ داروں کی مدد کی جاسکے
کسی دوسرے یورپین ملک میں اگر یورپین شہری اپنے فیملی ممبر کے ڈاکومنٹس بنواتا ہے اور اس موت ہوجاتی ہے یا وہ ملک چھوڑ کر کہیں چلا جاتا ہے تو اسی قانون میں یہ گنجائش ہے کہ ا سکے فیملی ممبران کو ڈی پورٹ نہیں کیا جاتا بشرطیکہ وہ ایک خاص مدت تک اپنے فیملی ممبران کے ساتھ رہا ہومثلاً اٹلی میں یہ قانون ہے کہ وہ موت کی صورت میں کم ازکم ایک سال تک اپنی فیملی کے ساتھ رہا ہو البتہ اس کی موت کی صورت میں اب فیملی ممبران کو خود روزگار تلاش کرنا ہوگا اور اپنے دستاویزات کام میں تبدیل کروانے ہوں گے یا پھر اسے لا محدود مدت کے کاغذات مل گئے ہوں
اسی طرح طلا ق کی صورت میں غیر یورپین شہری صرف اس صورت متعلقہ ممبر ملک میں قانونی طور پر رہ سکتا ہے کہ اگر ان کی شادی تین سال چلی ہو جن میں وہ کم ازکم ایک سال تک اکٹھے متعلقہ ملک میں رہے ہوں یا پھر بیوی کو عدالت کی طرف سے بچوں کی دیکھ بھا ل کی ذمہ داری سونپی گئی ہو یا پھر اسے لا محدود مدت کے کاغذات مل گئے ہوں یا پھر عدالت میں یہ ثابت ہوجائے کہ طلاق یورپین شہری کی زیادتی کی وجہ سے ہوئی ہے
اس قانون کا فائدہ ایسے تمام پاکستانیوںکو اٹھانا چاہیے جنہیں حال ہی میں یورپین ممالک کی شہریت مل رہی ہے کسی بھی یورپین ملک کا پاسپورٹ مل جانے کی صورت میں انہیں چاہیے کہ وہ اپنے فیملی ممبران کو یورپین ممالک میں قانونی طور پر رہائش دلوانے میں ان کی مدد کریں
قانون کا لنک انگریزی میں پڑھنے کے لیے کلک کریں‌
قانون کا لنک اطالوی زبان میں پڑھنے کے لیے کلک کریں‌
اٹلی میں کسی یورپین کو فیملی منگوانے کے لیے یہ فارم پر کر کے بھیجنا ہوگا
قانون یورپ از محمود اصغر چوہدری مورخہ 7دسمبر 2014



Your comments about this column
U r a doing v good job
Muhammad Ajmal Alvi
Thanks for information
Manaf Langrial
Well done
Amir Maqsood
Thanks allah ap ko is ka ajar de
Faisal Sahi
Aj ap k cloumn ne dhoom machai hoi hai Great bahi g
Amir Khan
جزاک اللہ ... بہت مفید معلومات ہے
رجب
V. Nice & interesting brother Mahmood Asghar Chaudhry main to yahee keh sakta hoon keh qawanin to hain lakin ham khud hi is qadar ignoranza main gum sum hain ... keh bas kiya kehnain! aap ko MubarikBad pesh karta hoon keh aap nain nihayat sada zuban main samjahaya hey! Shukariya!
Assad Mehmud
Ch sb you are a great man so that tell to other some nice information
TARIQ HUSSAIN
v nyc information
Mirza Ilyas Jarral
nice sir
Nawaz
nice bahi
nawazish ali
nice bahi
nawazish ali
آصٍٰف مھمہد
Thanks
Adeel kayani
Great bahi g
منشا+
Great bahi g
محمد منشاٰٰء
very nice ..........bahut informatic column he chaudhary sb ..
nadeem anjum
thanks
khuram
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN