Mahmood Asghar

Choudhary

برطانیہ کے امیگریشن قوانین میں سختی .... 08جون 2015
Download Urdu Fonts
برطانیہ کی نومنتخب حکومت اپنے سابقہ دور سے ہی انگلینڈ میں موجود تارکین وطن شہریوں کے لیے قوانین میں سختی پر کاربند ہے اورہر ممکن ایسی پالیسیاںبنانے کا عندیہ دیتی رہی ہے جس میں وہ برطانیہ آنے والے امیگرنٹس کا راستہ روکنے کے خواہشمند ہیں اپنی الیکشن مہم میں وہ 2017ءتک ایک ایسے ریفرنڈم کا بھی وعدہ کرچکے ہیں جس میں وہ یورپین یونین کی ممبر شپ سے صرف اس لیے نکلنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ یورپ بھر سے برطانیہ آنے والوں کوبرطانوی شہریوں سے برابر ی کے حقوق دینے کیلئے رضامند نہیں ڈیوڈ کیمرون کی کنزرویٹو پارٹی کی حکومت نہ صرف یورپین شہریوں کی امیگریشن کے خلاف ہے بلکہ وہ برطانیہ میں موجود دیگر ممالک سے آئے ہوئے تارکین وطن شہریوں کے لئے بھی سخت قوانین بنانے میں عملی اقدامات کر رہے ہیں جس میں برطانیہ میں موجود ال لیگل تارکین وطن شہریوں کے لیے بنک اکاﺅنٹ کھولنے اور ڈرائیونگ لائسنس رکھنے پر بھی پابندی عائد کر چکے ہیں ایک اندازے کے مطابق اب تک نو ہزار ڈرائیونگ لائسنس منسوخ کیے جاچکے ہیں گزشتہ دنوں برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈکیمرون نے امیگریشن کے سلسلے میں اپنی نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے او ر اس سلسلے میں بہت جلد ایک نیا امیگریشن قانون پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا، جس کے اہم نکات یہ ہیں
۱۔ کوئی بھی مکان مالک کسی ایسے امیگرنٹ کو مکان یا کمرہ کرایہ پر نہیں دے سکے گا جس کے پاس برطانیہ میں رہنے کا قانونی طور اجازت نامہ نہیں ،برمنگھم شہر میں یہ قانون پہلے ہی سے لاگو ہوچکا ہے اور اب اس کا دائرہ کار پورے برطانیہ میں پھیلا دیا جائے اور اس پر سختی سے عملدرآمد کر ایا جائے گا ۔
۲۔ برطانیہ میں غیر قانونی ملازمت دینے والے مالکان پر بیس ہزار پونڈز کا جرمانہ کیا جاتا ہے لیکن اب نئے قانون کے تحت اس کریمنل جرم بنا دیا جائے گا اس طرح ایسے مالکان کو جرمانہ کے ساتھ ساتھ جیل کی ہوا بھی کھانا پڑے گی جو کسی کو غیرقانونی طور پر ملازمت دیں گے
۳۔ ہر ایسے مالک مکان کو اپنی لوکل کونسل سے مکان یا کمرہ کرایہ پر دینے کا لائسنس لینا پڑے گا اس سے نہ صرف غیرقانونی تارکین کو تلاش کرنے میں مدد ملے گی بلکہ حکومت کو ٹیکس کی مد میں بھی اضافہ ہوگا
۴۔جعلی اور فرضی شادیوں کے سلسلہ میں حکومت اور امیگریشن حکام نے پہلے ہی خاصی سختی کر رکھی ہے شادی کی بنیاد پر برطانیہ میں سکونت لینے کے خواہاں امیگرنٹس کی نہ صرف شادی کی رجسٹریشن کے وقت اچھی خاصی جانچ پڑتال کی جاتی ہے بلکہ ا ن کے گھروں پر بغیر اطلاع جا کر ان کی شادی کے ضمن میں انٹرویوز بھی کئے جارہے ہیں اب اس سلسلہ میں جانچ پڑتال کے مراحل کو اور بھی سخت کیا جائے گا
۵۔ حکومت اور امیگریشن حکام ہزاروں کی تعداد میں موجود بوگس کالجوں کو بند کرچکی ہے یہ سلسلہ جاری رہے گا اور اسی طرح دیگر بوگس کالجوں کوبھی بند کردیا جائے گا
۶۔ امیگریشن حکام کی جانب سے کئے جانے والے فیصلوں کے خلاف اپیل کرنے کے حق کو تقریبا ًختم کر دیا گیا ہے اس ضمن میں اب اور بھی سختی کی جائے گی امیگرینٹس کو کہا جائے گا کہ وہ برطانیہ سے اپنے ملک میں جانے کے بعد اپیل کر سکیں گے
۷۔برطانوی حالیہ امیگریشن قانون کے مطابق کوئی بھی فرد کسی بھی ادارے یا عدالت کے فیصلہ کو ہائی کورٹ میں جوڈیشییل رویو کے تحت چیلنج کر سکتا ہے اس ضمن میں متاثرہ شخص کو وقت مل جاتا تھا اب حکومت اس کو بھی ختم کرنے کے درپے ہے اور صرف اپنے ملک واپس جا کر ہی ایسی درخواست کرنے کے سلسلہ میں قانون سازی کر رہی ہے
برطانوی وزیر اعظم کے مطابق ان تمام اقدامات کا مقصد ایسی تمام ترغیبات کا خاتمہ ہے جو تارکین وطن شہریوں کو برطانیہ کھینچنے کا سبب بنتی ہیں دوسری جانب برطانوی شماریاتی اداراہ او این ایس کی تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں مقیم یورپین شہری بڑی تیزی سے برطانوی شہریت لے رہے ہیںتمام حکومتی اداروں کے لیے یہ اعدادوشمار حیران کن ہیں کیونکہ برطانیہ میں مقیم یورپین شہریوں کے حقوق کم و بیش برطانوی شہریوں کے برابر ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اس وجہ کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یورپین شہری کیوں برطانوی شہریت کی دھڑا دھڑ درخواستیں جمع کرا رہے ہیں تو وجہ بڑی واضع ہے کہ برطانوی حکومت بڑی شد ومد سے 2017ءمیںریفرنڈم کی تیاری میں ہے جس میں کامیابی کی صورت میں برطانوی حکومت یو رپ کے ساتھ فری موومنٹ کے قانون کی شرائط نئے سرے سے طے کرا سکتے ہیں اور ایسے بہت سے بینفٹس پر پابندی لگواسکتے ہیں جس پر صرف ان ممالک کے شہریوں کا ہی حق ہوتا ہے تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے کہا ہے کہ وہ برطانیہ کو دنیا بھر میں اپنا سب سے بڑا اتحادی سمجھتا ہے کل جی سیون کی ملاقات میں انہوں نے ڈیو ڈکیمرون پر ایک دفعہ پھر زور ڈالا ہے کہ وہ یورپین یونین کی ممبر شپ سے نکلنے کے فیصلہ نہ کرے کیونکہ اس طرح وہ یورپین یونین کے ممالک پر اپنا اثرو رسوخ برقرار رکھ سکے گا لیکن اس وقت برطانوی پارلیمنٹ میں کچھ ممبرز نے اپنے ہی وزیر اعظم کے خلاف اتحاد بنانا شروع کردیا ہے جس میں ان پر زور ڈالا جائے گا کہ وہ یورپین یونین کی ممبر شپ سے نکلنے کے حوالے سے ریفرنڈم میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ کریں بہر حال ایک بات طے ہے کہ برطانیہ یورپین یونین کی ممبرشپ سے نہ بھی نکلے تومستقبل میں ان سے ایسے کنٹرکٹ ضرور سائین کرلے گا جس کے تحت یورپ سے آنے والے امیگرنٹس کے بینفٹس پر کئی ماہ تک پابندی لگائی جا سکے گی اور اس طرح ان کی آمد میں خاطرخواہ کمی واقع ہوسکتی ہے
محموداصغر چوہدری



Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN