Mahmood Asghar

Choudhary

یورپین شہریوں‌کی برطانیہ منتقلی میں‌رکاوٹیں‌...... 23فروری 2016
Download Urdu Fonts
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈکیمرون یورپین یونین کے ممبر ممالک کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ انگلینڈ اس وقت یورپین امیگرنٹس کی انگلینڈ کی جانب یلغار سے کافی فکر مند ہے اوریہ کہ برطانیہ کا یورپین یونین سے نکلنے کے ارادے کی دیگر بہت سی وجوہات کے علاوہ ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یورپ کے دیگر ممالک سے امیگرنٹس کی کثیر تعداد برطانیہ کا رخ کر رہی ہے جو کہ برطانیہ کے فلاح و بہبود کے نظام پر بہت بڑا بوجھ ہیں گزشتہ دنوں برسلز میں کئی گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس کے بعد وہ یورپین یونین سے ایک اہم معاہدہ طے کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کے نتیجے میں یورپین کونسل کے صدر ڈونلڈ ڈسک کے بقول برطانیہ کو یورپین یونین میں ’خصوصی درجہ‘ حاصل ہوگا۔برطانوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہم نے برطانوی کرنسی کو ہمیشہ کے لئے محفو ظ بنا دیا ہے اور اس معاہدے کے نتیجے میں بہت سی بہبودی سہولیات یعنی بینیفٹس کو سات سال کے لئے منجمد کیا جاسکے گایورپین شہریوں کے دوسرے ممالک میں موجود بچوں کے لئے چائلڈ بینفٹس کوتبدیل کیا جاسکے گا اور 2020ءتک برطانیہ میں پہلے سے موجود یورپین شہریوں پر بھی اس قانون کا اطلاق ہوجائےگا کہ وہ ایسے بچوں کے لئے چائلڈ بینفٹس نہیں لے سکیں گے جو دوسرے ممالک میں موجود ہوں گے
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کا خیال تھا کہ انہیں اس سلسلے میں بہت بڑی کامیابی ملی ہے لیکن یورپین یونین سے نکلنے کے خواہشمند راہنماﺅں نے اس معاہدے پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں بہت ہی معمولی تبدیلیاں پیش کی گئی ہیں جو کہ ان وعدوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی جو انہوں نے اپنے ووٹروں کو الیکشن مہم میں کئے تھے اور اب برطانوی حکومت یورپین یونین کی ممبر شپ سے برطانیہ کے اخراج کے ریفرنڈ م میں تقسیم ہوچکی ہے ڈیوڈ کیمرون ریفرنڈم کی تاریخ کا اعلان بھی کر چکے ہیں جو کہ اس سال 23جون کو ہو گا لیکن اب فرق یہ ہے کہ برطانوی وزیر اعظم اس ریفرنڈم میں اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ملکر عوام سے یورپین یونین میں رہنے کی مہم چلائیں گے اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ برطانیہ کو یورپ کی اور یورپ کو برطانیہ کی ضرورت ہے لیکن آخری فیصلہ برطانوی عوام کے ہاتھ میں ہے۔‘ جبکہ انہی کے پارٹی کے وزیر اور لندن کے مئیر کے علاوہ پارٹی کے دیگر راہنما یورپین یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے لئے مہم چلائیں گے ان کا خیال ہے کہ ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے کیا گیا معاہدہ یورپین یونین کے جج حضرات کی جانب سے مسترد کیا جا سکتا ہے اس لئے برطانوی عوام کے حقوق کی ضمانت اسی میں ہے کہ برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو جائے
برطانیہ کے ساتھ یہ معاہد ہ گزشتہ جمعہ کو طے پایا تھا جس میں 28ممالک کے سربراہان نے دستخط کر کے برطانیہ کو یہ حق دیا تھا کہ وہ برطانیہ میں یورپ بھر سے نئے آنیوالے امیگرنٹس کے حقوق پروقتی پابندی لگا سکے یاد رہے کہ یہ اشارہ ہے کہ مستقبل میں یہ پابندیاں یورپ کے ایسے ممالک بھی لگا سکیں گے جو معاشی طور پر دیگر یورپین ممالک سے بہتر ہیں
معاہدے کے اہم نکات یہ ہیں کہ یورپ کے دیگر ممالک یعنی پولینڈ ، رومانیہ جرمنی سپین یا اٹلی وغیرہ سے برطانیہ کام کے سلسلے میں منتقل ہونیوالے شہریوں کو فلاح وبہبود کی مد میں ملنے والے فنڈز کےلئے چار سال کا انتظار کرنا پڑے گا
برطانیہ کو ابتدائی طور پر 7سال کے لئے تجرباتی بنیادوں پر یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ اس قانون پر عمل کروا سکے قانون کی تفصیل کے تحت کام سے متعلقہ سوشل بینفٹس ابتدائی طور پر بالکل روکے جائیں گے اور پھر آہستہ آہستہ برطانیہ میں قیام کی مدت کے طوالت کے لحاظ سے ان کے حقوق بڑھنا شروع ہوجائیں گے
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو یورپین شہری پہلے سے برطانیہ میں موجود ہیں ان پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوگا بہرحال ایک دوسرا نکتہ جو اس میں شامل کیا گیا ہے وہ چائلڈ بینیفٹس کے حوالے سے ہے یورپین یونین کے قانون کے تحت ایک یورپین شہری ایسے بچوں کے لئے بھی چائلڈ بینیفٹس لے سکتا ہے جو اس کے ساتھ نہ رہ رہے ہوں لیکن اس پر انحصار کرتے ہوں اس نئے یورپین قانون کے تحت اب ان بچوں کے لئے چائلڈ بینفٹس ا نہیں برطانیہ میں رہنے والے بچوں کے برابر نہیں ملیں گے بلکہ اس ملک کے حساب سے ملیں گے جہاں وہ رہائش پذیر ہوں گے یعنی اگر کسی کے بچے رومانیہ میں ہیں تو اسے پیسے رومانیہ کے حساب سے ملیں گے انگلینڈ کے حساب سے نہیں یہ شق البتہ 2020ءمیں ایسے تمام یورپین شہریوں پر لاگو ہوگی جو پہلے سے ہی برطانیہ یا کسی دوسرے یورپین ملک میں رہ رہے ہیں اسی معاہدے کے تحت ایسے تمام نئے ممالک جو یورپین یونین میں شامل ہوں گے ان پر بھی کام کے حوالے سے ایسی ہی پابندیاں ہوں گی کہ انہیں کئی سالوں تک یورپ کے ممالک میں فوری طور پر کام کی اور دیگر بینیفٹس کی درخواست کرنے کی اجازت نہیں ہو گی
لیکن یہ معاہدہ قابل عمل ہونے کے لئے 23جون سے بعد کی کسی تاریخ کاا انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ برطانوی عوام ریفرنڈم میں کیا فیصلہ کرتے ہیں اس کے بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن گمان یہی کیا جا سکتا ہے کہ برطانوی عوام یورپین یونین سے نکلنے کا احمقانہ فیصلہ نہیں کریں گے کیونکہ ان کی جانب سے کئے گئے مطالبات بھی کم وبیش مان لئے گئے ہیں اور یورپین یونین کے ساتھ تجارت ہی انہیں ضروریات زندگی سستی فراہم کرنے اور ان کے لئے روزگار کے اہم مواقع دینے کا باعث ہے سب سے بڑا مسئلہ جو سر اٹھا سکتا ہے وہ سکاٹ لینڈ ہے جو کسی صورت بھی یورپین یونین سے علیحدگی نہیں چاہتا اگر برطانیہ نے یورپین یونین سے نکلنے کی غلطی کی تو سکاٹ لینڈ ایک دفعہ پھر برطانیہ سے علیحدہ ہونے کا مطالبہ کر سکتا ہے اور اس دفعہ اس مطالبے کے لئے اس کا جیتنا واضع ہوگا
یورپین یونین کا برطانیہ کے ساتھ اتنا لچکدار معاہد ہ یہ بات واضع کرتا ہے کہ یورپین یونین کے ممبر ممالک عام ورکر کلاس شہریوںکے مقابلے میں سرمایہ داروں اور تاجروں کے حقوق کا زیادہ خیال رکھتے ہیں ایسے تمام تارکین وطن شہری جو یورپین ممالک کی شہریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ان کے لئے میرا مشورہ یہی ہے کہ اگر وہ بہتر روزگار یا بہتر نظام زندگی کے لئے کسی ترقی یافتہ یورپین ملک میں منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انہی سالوں میں اپنے ارادے کو تکمیل دے لیںکیونکہ مستقبل میںیہ معاہدہ صرف برطانیہ تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ جرمنی فرانس اور بلجیم جیسے دیگر ممالک بھی ایسے مطالبات سامنے لیکر آئیں گے البتہ جو لوگ معاشی طور پر مستحکم ہیں ان کے لئے یہ مشورہ بھی ہے کہ ملک تبدیل کرنے کی کسی بھیڑ چال میں شامل ہونے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ یورپین قوانین جتنی تیزی سے ممبر ممالک میں اپنائے جا رہے ہیں یہ بات بھی بعید نہیں کہ مالیاتی فوائد کے لحاظ سے بہت سے قوانین تمام یورپین ممالک میں ایک جیسے لاگو ہوجائیں
تجزیہ و تحریر محمود اصغر چوہدری بمورخہ 23فروری 2016



Your comments about this column
Thanks very informative , well and detailed researched by a noble and honest man.
جیند
اچھا مناسب اور معتدل تبصرہ و تجزیہ کیا
سکندر حیات بابا
بھت اچھا لیکھا ھےبھای ساھب
سلمان اکبر
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN