Mahmood Asghar

Choudhary

الیکشن 2024 ء‌.... 11 جنوری 2024 ء‌
Download Urdu Fonts
الیکشن 2024ء پاکستان کے حالیہ الیکشن اور ان کے نتائج نے بڑے بڑے تجزیہ نگاروں کے تجزیے غلط کر دئیے ۔ ایک سیاسی جماعت اتنی زیر عتاب تھی کہ ان سے نہ صرف انتخابی نشان چھین لیا گیا بلکہ اس کے لیڈر پر سینکڑوں مقدمات بنا دئیے گئے ۔ اس پارٹی کا نام لینا جرم ہوگیا ۔ ان کی کمپین کرنا جلسے کرنا تک ممنوع ٹھہرا ۔ الیکشن سے چند دن پہلے تک اس کے امیدواروں کو مقدمات، کا غذات نامزدگی کی نامنظوری اوربے یقینی کی اس کیفیت میں مبتلا رکھا گیا کہ نوشتہ دیوارصاف نظرآرہا تھا کہ نہ اس پارٹی کو کمپین کرنے کا موقع ملے گا ۔ نہ اپنا انتخابی نشان سمجھانے اور نہ ہی امیدوار کا تعارف کرانے کا موقع مل سکے گا ۔ انتخابی مراکز کا ایسا جنجال پورہ نقشہ بنایا گیا کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد کو مختلف انتخابی مراکز الاٹ کر دئیے گئے ۔ الیکشن والے دن موبائل سروس معطل کر کے ووٹروں کو انتخابی مراکز میں نقشہ سمجھ کر یا ٹیکسی کر کے پہنچنا تک نا ممکن بنا دیا گیا ۔ لیکن شایدپاکستانی عوام اور خاص طور پر نوجوانوں نے فیصلہ سازوں کا سبق سکھانے کا دل ہی دل میں پروگرام بنا لیا تھا ۔ اسی لئے عوام نے سب دانشوروں ، ملکی سیاست پر تبصرہ کرنے والوں کے سارے اندازے ، سارے تبصرے غلط ثابت کرکے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو چورانوے سیٹیں جتوا دیں ۔ اور ایک صوبےمیں تو کلین سویپ کروا دیا ۔ یہ بہت بڑی پیغام تھا اسٹیٹس کو کو اور ان سیاستدانوں کو جو ابھی تک پاکستانی نوجوانوں کےمزاج کو نہیں سمجھ سکے ۔ جو ابھی تک سمجھتے کہ برادریوں کے بڑوں کو قابو کر لیں تو الیکشن جیتا جا سکتا ہے ۔ جوابھی تک شہری ایریا اور رورل ایریا کی ٹرمزسمجھتے نظر آتے ہیں ۔ انہیں پتہ ہی نہیں کہ انٹرنیٹ نے شہری اور دیہاتی علاقوں کا فرق ختم کر دیا ہے ۔ وہ نہیں جانتے کہ اب ہر ایک ووٹر سے فرداً فرداً رابطہ بہت ضروری ہے کیونکہ سوشل میڈیا نے پوری سیاسی سوچ کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔ ووٹر اتنا چالاک ہوگیا ہے کہ وہ اپنے بڑوں کو چاہے جو بھی یقین دلاتا رہے لیکن اسے پتہ ہے کہ پولنگ بوتھ میں وہ اکیلا ہوگا۔ وہ بریانی بھی کھائے گا ۔ جلسوں میں شرکت بھی کرے گا لیکن پولنگ بوتھ میں وہی کرے گا جو اس کا من چاہے گا ۔ نوجوان ووٹرز کےعلاوہ جو دوسری بڑی تبدیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ مرد جو سمجھتے تھے کہ ہماری عورتیں وہیں انگوٹھا لگائیں گے جہاں ہم کہیں گے اسے ہی ووٹ دیں گی جس کے بارے ہم کہیں گے ۔ وہ بھی غلط ثابت ہوئے ۔ وہ بھول گئے کہ موبائل فون پر سوشل میڈیا یا ٹک ٹاک پر زیادہ وقت وہ ہی گزارتی ہیں اس لئے ان کے ذہنوں کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا ۔ حالیہ انتخابات میں مشہور شخصیات ، مشہور سیاسی خاندانوں اور مشہور تجزیہ نگاروں کا قبضہ ٹوٹ گیا ہے۔ اب ہرفرد خود اپنی مرضی اور اپنے ذہن سے اپنی رائے پر عمل کر تا ہے ۔ جمہوریت کے معاملے میں پاکستان جیسے ملک میں یہ اچھی روایت ثابت ہوگا ۔ دوسرا عوام نے پہلی بار مقتدرہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ملک کے سیاسی معاملات میں جبر اور سازشوں سے اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کریں گے تو عوام اپنا غم وغصہ ووٹ کے ذریعے نکال لیں گے ۔ مسلم لیگ ن جو انتخابات سے پہلے اپنے آپ کو ساڈی گل ہو گئی جیسے پھس پھسی مہم چلا ہے تھے اور بغیر کسی منشور ،بغیر کسی نعرے یا بغیر کسی پروگرام کے صرف یہ سوچ کر داخل ہوئے تھے کہ انہیں ہر صورت میں سادہ اکثریت مل جائے گی ۔انہیں شہباز شریف کے سولہ ماہ کے کانے چہوٹے کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور اب وہ حکومت بنانے کے لئے سیاسی جماعتوں کے درد ر پر سلامی دے رہے ہیں ۔ ایسے سارے منظر میں پیپلز پارٹی مزے میں ہے ۔ سارے ملک کی سیٹیں لینے کی اس کی نہ تو کوئی خواہش تھی اور نہ ہی کوشش وہ اس لحاظ سے مطمئن ہیں کہ کوئی بھی حکومت ان کی مرضی یا ان کی حمایت کے بغیر بن ہی نہیں پائے گی ۔ اس لئے وہ اپنا حصہ اتحادی بن کر زیادہ بہتر طریقے سے پا سکیں گے۔ الیکشن نتائج کے بعد سب سے بہترین حل تو یہی ہے کہ اکثریتی پارٹی کو حکومت بنانے دی جائے ۔یعنی پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو یہ موقع ملنا چاہئے کہ وہ وفاق اور خیبر پختونخواہ میں حکومت بنائیں ۔ پی ٹی آئی کو بھی اب اپنی سیاسی سوچ تبدیل کرنی چاہئے ۔ بلاشبہ ان کے حمایت یافتہ ارکان اکثریت لیکر آئے ہیں لیکن سیاسی استحکام کے لئے انہیں اپنےدروازے دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے کھولنے چاہئے اور پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو کے ساتھ ملکر حکومت بنانی چاہئے ۔ ن لیگ اگر اکثریت کو تسلیم نہیں کرتی اور اپنی حکومت بنوا بھی گئی تووہ حکومت دو سال سے زیادہ نہیں چل سکے گی ۔ لیکن اس حکومت کا سب سے بڑ ا نقصان بھی ن لیگ کو ہو گا۔ اتحادی جماعتیں مزے سے وزراتیں انجوائے کریں گی اور ن لیگ عوام کی گالیاں کھائیں گے ۔ جو پی ٹی آئی چار حلقو ں کے نام پر پورا نظام ایک سو چھبیس دن تک مفلوج کر سکتی تھی وہ چالیس سیٹوں کے شور پر انہیں ایک دن بھی حکومت سکون سے نہیں کر نے دے گی ۔ ملک کی معاشی صورت حال اور دیگر چینلجز اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ اس وقت ملک کو سیاسی استحکام مہیا کیا جائے تاکہ بین الاقوامی سطح پر ملک سر اٹھانے کے قابل ہو سکے ۔ #محموداصغرچودھری



Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN