Mahmood Asghar

Choudhary

حلوے اور معافی نامے .... 26 فروری 2024ء
Download Urdu Fonts
حلوہ کچھ سال پہلے اٹلی میں ایک خاتون کو اس کے خاوند نے اس بات پر تشدد کا نشانہ بنایا کہ اس نے جینز پہنی ہوئی تھی ۔ دوسرے دن پورے اٹلی میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا ۔ اور خواتین کی تمام تنظیمات و دیگر این جی اوز نے اس عورت کے ساتھ یکجہتی کے لئے جینز پہن کر جلوس نکالے ۔ دوسری جانب پارلیمنٹ میں موجود تمام خواتین نے بھی اس دن جینز پہن کر شرکت کی ۔ اور یہ پیغام دیا کہ ملک میں تشددکی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ دنیا کے ہر جمہوری ملک میں یہی ہوتا ہے کہ اگر کسی بھی فرد، گروہ یا کمیونٹی کے خلاف تشدد کا معاملہ سامنے آئے تو ملک کے باشعور عوام اس کے ساتھ یکجہتی اورخیر سگالی کے لئے ملک میں ٹرینڈ چلاتے ہیں کہ ہاں ہم بھی اس کے ساتھ ہیں آؤجو کرنا ہے کر لو ۔ مثلاًبہت سے ممالک میں اسلاموفوبیا سے لڑنے کے لئے غیر مسلم شہری بھی یہ ٹرینڈ چلاتے ہیں کہ ہاں ہم بھی مسلمان ہیں ۔ اگر کسی اخبار ، کتاب یا صحافی کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس اخبار یا کتاب کے حق میں کمپین چلتی ہے کہ ہاں ہم بھی یہ ہیں ۔ اس مہم کا مقصد انتہا پسندوں کو یہ پیغام دینا ہوتا ہے کہ متاثرہ شخص اکیلا نہیں ہے سارا معاشرہ اس کے ساتھ ہے ۔ لیکن پاکستان کی روایت نرالی ہے ۔ جو بھی شخص کسی مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہوتا ہے ۔ اس کودوبارہ انہیں جنونیوں کے درمیان میں بٹھا کر معافی نامہ چلوایا جاتا ہے ۔ یعنی بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لی جاتی ہے ۔ ایسے معافی نامہ کی ویڈیو میں وہ انتہا پسند یہ پیغام دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے محدب عدسے سے متعلقہ شخص کا ایمان چیک کیا ہے اور ان کے طے کردہ پیمانے پر یہ شخص ٹھیک پایا گیا ہے ۔ اور وہیں پر بس نہیں ہوتی بلکہ غلطی پر نہ ہونے کے باوجود بھی وہی متاثرہ شخص ایک معافی نامہ پڑھتا ہے کہ حالانکہ میری غلطی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود میں معافی چاہتا ہوں ۔اس معمے کو سمجھنا ہے تو پاکستان کی فلم زندگی تماشہ دیکھیں جس کا مرکزی خیال بھی یہی ہے کہ انتہاپسند ہیرو سے اس غلطی کی معافی منگوانا چاہتے ہیں جو سرے سے غلطی ہے ہی نہیں ۔ لیکن فلم کا انجام یہ ہوا کہ اتنی بہترین کہانی اور مرکزی خیا ل کو سینماوں پر بین کر دیا گیا اب یہ فلم یوٹیوب پر بالکل مفت دستیاب ہے اصل میں غلطی پر معافی مانگنے پر کوئی حرج نہیں لیکن غلطی پر نہ ہونے کے باوجود زیادہ معافیاں انتہا پسندوں کے تکبر اور غرور میں اضافہ کرتا ہے اور وہ معاشرے کو یہ دکھانے میں کامیا ب ہوجاتے ہیں کہ وہ کتنے طاقتور ہیں کہ لوگ ان سے کتنا ڈرتے ہیں ۔ یہی معاملہ اچھرہ بازار میں حلوہ لکھے لباس پہننے کے بعد عورت کے معافی نامے سے ہوا ۔ اگر پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہوتی تو وہی علما جو اس خاتون سے معافی منگوا رہے تھے وہ کیمرہ سکرین پر جہلا سے خطاب کر کے کہتے جاہلوکم از کم اتنی عربی تو سیکھ لو کہ ایک عام سے لفظ اور قرآنی آیات میں فرق کرنا جان سکو ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اس ڈر اور معاشرے میں انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لئے ضروری تھا کہ تمام شہروں میں خواتین ایسے لباس پہن کر نکلتی جن پر حلوہ(میٹھا) کی بجائےحامض (کڑوا ) لکھا ہوتا مگر کتھوں ۔۔۔ ایک ڈرے ہوئے سہمے ہوئے انتہا پسندی کے غلامی پسند معاشرے میں ، آزادی جمہوری روایات اور یکجہتی و خیرسگالی کے الفاظ کا کیا تعلق ؟ #محموداصغرچودھری



Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN