Mahmood Asghar

Choudhary

اٹلی کی پاکستانی باحجاب وکیل --- 15 مارچ 2024
Download Urdu Fonts
اٹلی کی پاکستانی باحجاب وکیل
ایک وقت تھا کہ اٹلی میں ایک سیاہ فام افریقی شہری کالا کوٹ پہنےعدالت پہنچا تو جج صاحب فرمانے لگے تم وکیل ہو ؟ میں نہیں مانتا اپنا کارڈ دکھاؤ ۔پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ ایک جج صاحب نے ایک مسلمان وکیل کو حکم صادر کیا کہ اگر عدالت میں آنا ہے تو سر سے حجاب اتار کر آؤ۔ ایک وقت تھا کہ اٹلی میں جب کوئی غیرملکی بچہ یا بچی کوئی پروفیشنل تعلیم حاصل کرنے کی بات کرتا تو اسے کہا جاتا کہ تمہارے لئے یہ بہت مشکل ہوگی تم ایسا کرو کوئی ٹیکینیکل یا مکینیکل کورس کر لو تاکہ تمہیں روز گار آسانی سے مل سکے ۔ لیکن اب اسی ملک کے اخباروں نے ایک ہیڈ لائین لگائی ہے کہ اسما انور اٹلی کی پہلی باحجاب وکیل ہیں اور انہوں نے ان کا انٹرویوبھی چھاپا ہے ۔
27 سالہ اسما کاتعلق پاکستان سے ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھی جب اپنی ٹیچر سےاس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ وکالت پڑھنا چاہتی ہیں تو انہوں نے اس کی حوصلہ شکنی کی تھی کہ یہ بہت مشکل ہے اور تمہار ے لئے آسان نہیں ہوگی ۔ لیکن اب وہی اسما عدالتوں میں دوپٹہ اوڑھے سر ڈھانپے وکالت میں اپنا نام بنا رہی ہیں ۔ اور شاید پہلی پاکستانی وکیل بن چکی ہیں ۔ وہ 21سال پہلےپاکستان سے اٹلی کے گاؤں رولومیں اپنے والدین کے ساتھ آئی تھی ۔ اس وقت اسما کی عمر صرف پانچ سال تھی ۔ انہوں نے اعلی تعلیم حاصل کی اور اس وقت وہ اطالوی کے ساتھ اردو پنجابی ، ہندی اور انگریزی زبان بولتے ہوئے اپنے دیگر کولیگز سے بہتر پوزیشن میں ہے ۔ اسما نے اپنے انٹرویو میں بتا یا ہے کہ اسے وکالت کا شوق اپنے انکل کو دیکھ کر آیا تھا جو کہ پاکستان میں وکیل ہیں ۔ جب 2018ء میں بلونیا کی عدالت میں ایک جج نے ایک مسلمان وکیل کو سر سے حجاب اتارنے کا کہا تھا تو اس وقت انہیں بہت دکھ ہوا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے تو وہ انگلینڈ چلی گئیں تھی لیکن پھر واپس آئیں اور یہاں آکر تعلیم مکمل کی اور اب وہ ڈنکے کی چوٹ پر اپنے سر کو ڈھانپیں گی کیونکہ یہ میری پاکستانی ثقافت کی پہچان ہے ۔ میں دو ثقافتوں کی امین ہوں ۔ میں لباس تو اطالوی پہنتی ہوں کیونکہ یہ بھی میرا ملک ہے مگر میں اپنا سر ڈھانپوں گی کیونکہ میں اس ثقافت کی بھی نمائندہ ہوں ۔
اسما کی والدہ پاکستان میں ایک ٹیچر تھیں اور انہوں نے اپنے بچوں کو تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ بچپن میں ایک ٹرام اسٹیشن پر انہیں ریس ازم کا بھی سامنا کرنا پڑا جب کسی اطالوی شہری نے آوازیں کسی تھیں کہ تم غیر ملکی ہو اپنے ملک چلی جاؤ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری ۔ انہیں سکول میں بھی شروع میں اپنی کچھ دوستوں کی نارضگی مول لینا پڑی کیونکہ وہ سر پر دوپٹہ رکھتی تھیں ۔
اطالوی میڈیا نے جان بوجھ کر ان سے ارینجڈ میرج کا سوا ل کیا اور پوچھا کہ کیا یہ بچیوں پر ظلم نہیں ہے کہ ان کی شادی زبردستی ان کے رشتہ داروں سے ارینج کر دی جاتی ہے۔ جبکہ مردوں کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ اپنے مرضی سے شادی کر سکتے ہیں تو انہوں نے کمال مہارت سے جواب دیا کہ یہ ارینج میرج صرف لڑکیوں کی تو نہیں ہوتی ۔ لڑکوں کی بھی ایسےہی ہوتی ہے اور یہ ہماری ایک رسم ہے ا سمیں کچھ غلط نہیں اگر والدین دونوں بچوں سے ان کی مرضی پوچھ کر شادی کریں تو ا س طریقہ کار میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر آپ کی شادی ارینج کی جائے تو کیا آ پ اس کو قبول کریں گی تو ان کا کہنا تھا ہمارا یہ ماننا ہے کہ ہمارے والدین ہماری پسند نا پسند کو بہتر سمجھتے ہیں اور ہماری شادی ارینج کرتے وقت وہ ان تما م باتوں کا خیال رکھتے ہیں ۔ پاکستان میں بچیوں کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ اگر انہیں لڑکا پسند نہ آئے تو وہ انکار کر سکتی ہیں ۔صحافی نے کہا کہ لیکن اس کے باوجود اٹلی میں بہت سی پاکستانی لڑکیاں قتل بھی ہوئی ہیں کیونکہ وہ ارینج میرج سے انکاری تھیں تو ان کا کہنا تھا کہ یہ تو صرف اکا دکا واقعات ہے ۔ اور پدرسری سوچ کی عکاس ہیں ۔ لیکن اکثریت کے والدین تو اپنے بچوں پر زبردستی نہیں کرتے ۔ میں تمام والدین سے یہی کہوں گی کہ اپنی بچیوں پر اعتماد کریں ۔ انہیں اعلی تعلیم دلوائیں اور ان کی شادی بیاہ کے سلسلے میں ان کی مرضی ضرور شامل رکھیں ۔
اسماء انور نے کمال ڈپلومیسی سے اپنے کلچر اور اس سے وابستہ پراپیگنڈہ کا جواب دیا ہے ۔ ہم بھی اسما کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ترقی کے سفر میں اس کے لئے دعا گو ہیں ۔ اور میں ذاتی طور پر یورپ میں مقیم تمام والدین سے بھی التماس کرتا ہوں کہ وہ یورپ میں لائے جانے والےبچوں پر اعتماد کا اظہار کریں تاکہ وہ اعلی تعلیم حاصل کرکےاپنا نام بنا سکیں
#محموداصغرچودھری



Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN