Mahmood Asghar

Choudhary

کثرت علم تشکیک کا باعث ..... 7 اپریل 2024
Download Urdu Fonts
جب تک ہم مساجد کے سادہ سے اماموں اور ہمارے دیہاتوں کے میاں جی ٹائپ کے مولوی حضرات کے ساتھ منسلک رہے ۔ یقین مانیں عبادات سے لیکر مذہب کی دیگر تمام روایات تک وہ سکون پہنچاتی تھیں خدا سے ہمارا وہ گہرا تعلق بناتی تھیں کہ ہماری روح تک شاداب رہتی تھی۔ دلوں میں اللہ ، اس کے سچے رسول ﷺ اور اس کی دین کی خدمت کرنے والی بزرگ ہستیوں سے وہ محبت کی شمع جلتی رہتی تھے کہ ان کے نام زبان پر آتے ہیں ادب سے آنکھیں جھک جاتی تھیں ۔ جب تک ہم خود بھی کم تعلیم یافتہ تھا سکون اور ایمان کی وہ دولت نصیب تھی کہ ہر دینی عمل میں لطف آتا تھا ۔ لیکن جب سے ہم نے بہت زیادہ پڑھے لکھے علمائے کرام کو پڑھنا شروع کیا اوران کی بات ماننی شروع کی تو انہوں نے ہر تعلق کو کمزور کیا اور ہر ہستی پر ذہن کو تشکیک کا شکار بنایا اور ہرعبادت کا سرور چھین لیا ۔ میں ا س بات کو مثالوں سے ثابت کر سکتا ہوں ۔
مثلاً گاؤں میں ایک آدھ مسجد ہوتی تھی رمضان آتے ہی سحری وافطاری کیلئے گھڑی دیکھنے کا تکلف اور نہ ہی کیلنڈر دیوار پر سجانے کا شوق نہ رمضان کے آغاز عید کا چاند کا جھگڑا ۔ میاں جی نے اعلان کیا تو سحری بند کر دی ۔ میاں جی نے اعلان کیا تو روزہ کھول لیا، نہ اس مسجد میں دس منٹ پہلے نہ اس مسجد میں دس منٹ بعد والا جھگڑا ۔ نہ اس دن عید نہ اس دن عید کا رولا۔ افطاری کے بعد سب سے زیادہ مزہ باجماعت نماز تراویح میں آتا تھا ۔ مزے سے قرآن سنتے تھے ۔ ستائیسویں شب کو ساری رات جاگتے ۔ میں جب تک پاکستان رہا ۔ میاں جی کے ساتھ ساری رات جاگ کر سو سو نفل پڑھے صبح کی فجر کی نماز پڑھ کر گھر جاتے ۔ شب برات کو نوافل پڑھتے ۔ اذان سے پہلے درود کے نذرانے پیش کرتے ۔ محبت سے آنکھوں کو ہاتھ لگاتے ۔ صبح کی نماز کے بعد مصطفی ٰ جان رحمت پر لاکھوں سلام کہتے سارا دن ایک عجیب سے روحانی کیفیت طاری رہتی ۔ بزرگان دین کے لئے ایصال ثواب کی محافل رکھتے ۔
پھر ہم پڑھ لکھ گئے ۔ علمائے کرام کی موٹی موٹی کتابیں پڑھیں ۔ یوٹیوب پر ان کے لیکچر سننا شروع کئے تو انہوں نے ہمارے ذہن میں یہ ڈالا کہ غیر ضروری موقع پر درود پڑھنا بدعت ، گمراہی ہے ۔ ہم نے وہ چھوڑ دیا ، مسجد میں مصطفی جان رحمت کو لاکھوں سلام بھیجنا بدعت ہے گمراہی ہے ۔ ہم نے کہا جی ٹھیک ہے ۔ پھر انہوں نے کہا کہ شب برات کی کوئی عبادت نہیں ہوتی ۔ ہم نے رات سو کر گزارنا شروع کر دی۔ پھر کچھ زیادہ علم والے آئے انہوں نے کہا کہ تراویح آٹھ ہوتی ہے تم گمراہ ہو ۔ ہم نے کہا جی ٹھیک ہے ۔ پھر اس سے بھی زیادہ پڑھے لکھے آئے انہوں نے کہا کہ تراویح تو کوئی نماز ہی نہیں ہوتی یعنی ساری کی ساری عبادت ہی مشکوک کر دی ۔ ہم نے کہا جی ٹھیک ہے
ہم پہلے پوری نماز پڑھتے تھے سنتوں کے ساتھ نوافل بھی ادا کرنے ۔ پھر کچھ پڑھے لکھے آئے انہوں نے کہا کہ نماز صرف وہی ہے جو فرض ہے ہم نے کہا جی ٹھیک ہے ۔ پھر کچھ مزید پڑھے لکھے آئے انہوں نے کہا تمہاری نماز کا طریقہ ٹھیک نہیں ہے یہ تو یوں ہونی چاہئے تھی ہم سوچ میں پڑگئے جو اتنی پڑھ گئے ہیں ان کا کیا بنے گا ۔ ہم بچپن سے جمعۃ الوداع پر خصوصی اہتمام کرتے ، خصوصی دعائیں کرتے رو رو کر اپنے خالق کو منانے کی کوشش کرتے پھر کچھ پڑھے لکھے آئے انہوں نے بتایا جمعۃ الوداع کی بھی شریعت میں کوئی خاص حیثیت موجود نہیں ہے ۔
ہم بچپن میں بزرگان دین کے ایصال ثواب کی محافل رکھتے تھے اور پھر کچھ پڑھے لکھے آئے انہوں نے کہا کہ بابے تے شے ہی کوئی نہیں اس لئے بزرگان دین کا احترام بھی آنکھوں رخصت کراگئے ۔ پھر کچھ مزید پڑھے لکھے آئے انہوں نے یہ بحث چھیڑی کی زیادہ افضل کون ہے اہل بیت یا صحابہ ۔ اس سے پہلے تو ہم بھولے ہی اچھے تھے ہمیں تو یہ پتہ تھا کہ محبت محبت ہوتی ہے اس کا کوئی پیمانہ تھوڑی ہوتا ہے کہ کس سے زیادہ کر نی ہے اور کس سے کم کرنی ہے ۔ پڑھے لکھوں نے سمجھایا کہ یہ جو تم رسول اللہ ﷺ اس کے صحابہ رض ، اسے کے اہل بیت رض اور اس کے اولیا ء سے محبت کا زیادہ دم بھرتے ہو اس میں شرک کا احتمال ہے ۔ یہ محبت نہیں ہے یہ دراصل تم غیر اللہ کو خؤش کرنے کے لئے کرتے ہو ۔ ہم تو سادہ لوگ تھے سمجھتے تھے کہ خدا کا بندہ خدا کا ہی ہوگا خدا کو غیر تھوڑی ہوگا ۔ پھر کچھ پڑھے لکھوں نے آکر سمجھایا کہ نہ نہ توحید جب خالص بیان ہوگی تو پھر دوسروں سب کی گستاخی تو خود بخود ہوجائے گی ۔ یہ کون سی خالص تعریف ہے جس میں با پ کا رتبہ زیادہ سمجھانے کے لئے ماں کو حقیر ثابت کرنا پڑے ؟
اے خدا علم تو شعور کی آنکھیں کھولتا ہے لیکن یہ کیسا علم ہے معاشرے میں جس نے ہمارا تم سے رابطہ کمزور کر دیا ہے ۔ اے خدا بہت کنفیوز ہوگئے ہیں کوئی کہتا ہے ایک دن پہلے روزہ رکھو تو جنت میں جاؤ گے کوئی کہتا ہے نہیں اگلے دن رکھوورنہ شریعت کے خلاف ہو ، کوئی کہتا ہے ، شروع وقت میں روزہ کھول لو ، کوئی کہتا ہے نہیں دس منٹ لیٹ کھولو ۔ کوئی کہتا ہے عید فلاں ملک کے ساتھ کرو دوسرا کہتا ہے عید والے دن روزہ رکھ لیا جہنم میں جاؤ گے ۔ کوئی کہتا ہے شب برات کچھ نہیں محض افسانہ ہے کوئی کہتا ہے تروایح پڑھو گے تو سنت کے خلاف جاؤ گے کوئی کہتا ہے کہ پڑھنی ہے تو آٹھ پڑھنا کوئی کہتا ہے نہیں بیس پڑھنا ، کوئی کہتا ہے اہل بیت ، صحابہ اور اور بزرگان دین سے محبت عین دین ہے ، کوئی کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی بھی غیر اللہ سے محبت سیدھا جہنم میں لے جائے گی ۔ اے اللہ ہمیں نہیں چاہیے یہ علم جو ہم سے تیری محبت چھین رہا ہے ۔ ہمیں ہمارے گاؤں کے وہ سادہ سے میاں جی دوبارہ ملا دے جو بہت مشکل بحثیں نہیں چھیڑتے تھے بس عمل کی دعوت دیتے ہیں تقریر اور تحریر کے پے چیدہ فن سے نا آشنا تھے ۔ جو ایک دن وضو کرتے ہوئے کہنے لگا جانتے ہو قیامت کے دن شیطان بھی بخشے جان کی امید رکھا ہے ۔ میں نے پوچھا میاں جی وہ کیسے وہ وضو کے پانی میں تر اپنی سفید داڑھی کوصاف کرتے ہوئے بولے کیونکہ اللہ تعالی نے اپنی رحمت کا صرف ایک فیصد ہمیں دنیاوی زندگی میں دیا ہے باقی کا ننانوے فیصد تو اس نے آخرت کے لئے رکھا ہوا ہے ۔ کہاں سے ملیں گے ایسے میاں جی ٹائپ کے مولوی حضرات ۔ مجھے ان کی تلاش ہے ۔ جو بولیں
علموں بس کریں او یار ۔۔۔ اک الف ترے درکار
جمعۃ الوداع کی شریعت میں اہمیت کا تو پتہ نہیں بس دعا کر دیں اللہ ہمارے لئے آسانیاں پیدا کرے
تحریر #محموداصغرچودھری



Your comments about this column
اس کالم کے بارے میں آپ کے تاثرات
To change keyboard language from urdu to english or from english to urdu press CTRL+SPACE
آپ کا نام

Admin Login
LOGIN